معزز قارئین ! 7 فروری اور 10 فروری کو، میرے دو سرگودھوی بزرگوں ، تحریک پاکستان کے کارکنوں ، ماہرِ اقبالیات اور کئی کتابوں کے مصنف ، پروفیسر محمد منور مرزا اور ’’ شاعرِ شباب ‘‘ سیّد الطاف حسین مشہدی کی بالترتیب برسی ؔ اور سالگرہؔ تھی۔1947ء سے پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں ، ہمارا اور پروفیسر محمد منور مرزا کے والد صاحب ، ماہر تعلیمات مرزا ہاشم اُلدّین خان ہمارے پڑوسی تھے۔ مرزا منّور صاحب کا چھوٹا بھائی مرزا محمد مظفر گورنمنٹ کالج سرگودھا میں فرسٹ ائیر سے بی۔ اے ۔ تک میرا کلاس فیلو رہا۔
مَیں نے 1956ء میں شاعری شروع کی اور 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا ، کئی مقامی اخبارات کا ایڈیٹر رہا، جب میرے ایک شاعر دوست سیّد ضامن علی حیدر نے مجھے ہفت روزہ ’ ’ خلوص ‘‘ سرگودھا کے چیف ایڈیٹر (علاّمہ سیمآب اکبر آبادیؔ کے شاگرد ) اور کئی کتابوں کے مصنف ، ’’ شاعرِ شباب‘‘ سیّد الطاف حسین مشہدی سے متعارف کرایا۔ سیّد صاحب غائبانہ مجھے بھی جانتے تھے ۔ ایک ہی ملاقات میں اُنہوں نے مجھے ’’ خلوص ‘‘ کا ایڈیٹر نامزد کردِیا۔
چند دِن بعد ’’ شاعرِ شباب ‘‘ کے ایک ( پیر بھائی ) شاعر اور صحافی مولانا اخگر سرحدی کی سرپرستی میں مَیں نے اور میرے دوستوں نے مل کر ’’ بزم ثقافت ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس میں ’’شاعرِ شباب ‘‘ کے قانون دان بھانجے ( بعد ازاں داماد ) سیّد اعجاز حسین گیلانی سے دوستی ہوگئی۔ مَیں نے دیکھا کہ ’’ گیلانی صاحب اکثر مختلف مقدمات میں اُلجھے ہُوئے ( غریب ، غُرباء ) کے مقدمات کی مفت وکالت کِیا کرتے تھے ۔ بعد ازاں گیلانی صاحب فروری 1982ء سے فروری 1997ء تک اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھی رہے ۔ وہاں بھی مَیں نے اُن کا اِنسانیت سے محبت کا روّیہ دیکھا۔
معزز قارئین !۔ 9 فروری 2021ء کی شام ، 1961ء سے سرگودھا، لاہور ، اسلام آباد اور پھر سالہا سال سے لندن باسی ، شاعر ، ادیب ، دانشور ، پبلشرز ، فلمساز اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد صفدر سیّار ؔ نے مجھے ٹیلی فون پر کہا کہ ’’ بڑے بھائی ! ۔ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ’’ کل 10 فروری کو، ہمارے مشترکہ بزرگ دوست ’’ شاعرِ شباب‘‘ سیّد الطاف حسین مشہدی کی 107ویں سالگرہ ہے؟۔ مَیں نے کہا کہ ’’ سیّد بھائی!۔ مولانا حسرت ؔموہانی نے مجھ جیسے لوگوں کے لئے کہا تھا کہ …؎
’’ نہیں آتی تو ، یاد اُن کی ، مہینوں تک ، نہیں آتی !
مگر جب ، یاد آتے ہیں تو اکثر ، یاد آتے ہیں !‘‘
…O…
’’پروفیسر محمد سلیم بیگ !‘‘
معز ز قارئین ! 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ہمشیرۂ محترمہ فاطمہ جناحؒ ، کونسل مسلم لیگ ( بعد ازاں متحدہ اپوزیشن )کی امیدوار تھیں ، جنہیں ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب ِ مجید نظامی نے ’’ مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔ مَیں اُن دِنوں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار تھا۔ انتخاب کے آخری دَور میں تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، مادرِ ملّتؒ کی انتخابی مہم کے انچارج قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے ایک ( مرحوم ) صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت ؔکو ’’ مادرِ ملّت‘‘ سے ملوانے کے لئے لاہورلائے ۔
ہمارے ساتھ لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ( موجودہ چیئرمین پیمرا ، پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد ) اور پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم طورؔ ( اُردو پنجابی کے نامور شاعر، ادیب اور ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسیؔ کے والد ) کی بھی مادرِ ملّتؒ سے ملاقات ہُوئی ، پھر اُن سے میری باقاعدہ دوستی ہوگئی۔ ہندی کے نامور شاعر ، ’’گوسوامی ‘‘ تُلسی دؔاس نے کہا تھا کہ …؎
تُلسی باؔنہہ سپُوت کی، بھُولے سے چُھو جائے!
آپ نِبھاوےؔ عُمر بھر ،بیٹے سے کہہ جائے !
…O…
یعنی ’’ اے تُلسی ؔ اگر کسی با کردار شخص کا بازو ، بھولے سے بھی کسی سے چھو جائے تو، وہ تاحیات دوستی نبھاتا ہے اور ، انتقال سے پہلے اپنے بیٹے کو بھی دوستی کا سبق پڑھا جاتا ہے !‘‘۔
معزز قارئین ! مَیں سوچتا ہُوں کہ اگر عزیزم پروفیسر محمد سلیم بیگ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں اور برادرم سعید آسیؔ شاعر اور صحافی نہ ہوتے تو، کیا پھر بھی اُن سے میری دوستی کے رشتے مضبوط ہو جاتے؟۔ پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ (1976-77ء میں گورنمنٹ کالج لاہور/ یونیورسٹی میں پروفیسر محمد منور مرزاکے شاگرد رہے اور بعد ازاں مجلس اقبال ؒ کی تقریبات میں بھی اپنے اُستاد محترم سے بھی فیض یاب ہوتے رہے ہیں ۔ وہ تو، یکم فروری ہی سے بار بار مجھے یاد دِلا رہے تھے کہ"Sir!" ۔ کورونا وائرس (Coronavirus) کے باعث کیا ، پروفیسر محمد منور مرزا کے دوست اور عقیدت مند ، سماجی فاصلہ قائم رکھتے ہُوئے ، اُنہیں یاد کریں گے؟ ‘‘۔
’’ موت خُود زندگی کی محافظ ! ‘‘
معزز قارئین ! 1990ء میں اپنی پنجابی شاعری کے پہلے انتخاب (کتاب ) ’ ’ سوچ سمندر ‘‘ کا انتساب تھا ۔ ’’ شہر فریدؒ (بابا فریداُلدّین مسعود گنج شکر ؒ ) تے ایس دِیاں دل موہن والیاں فضاواں دے ناں ، جنہاں چہ میرے نال میری شاعری وِی پروان چڑھی!‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے اِس قول کے مطابق کہ ’’ موت خُود زندگی کی حفاظت کرتی ہے!‘‘۔ 16/17 دِن ’’ کورونا وائرس‘‘ پاکپتنؔ دے پیارے ،( برادرِ عزیز سعید آسیؔ کا) کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ سعید آسیؔ کی 12 فروری کی ’’ بیٹھک‘‘ کا عنوان مرزا غالبؔ کا کیا خوب مصرعہ ہے؟ …
’’ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا !‘‘
…O…