تنہا باحجاب مسلم طا لبہ کا نعرہ تکبیر

Feb 14, 2022

Ambreen Fatima

عنبرین فاطمہ
بھارت میں’’ حجاب‘‘ پر پابندی کے بعد مسلم طالبات کو انتہا پسندوں کے زریعے ہراساں کیا جا رہا ہے جو کہ یقینا قابل مذمت ہے ۔طالبات کا کہنا ہے کہ حجاب لینا ان کا بنیادی حق ہے جس سے انہیں نہیں روکا جا سکتا ۔ہم سب نے گزشتہ دِنوں ایک وائرل ہونے والی وڈیو میں دیکھا کہ کس طرح سے ایک لڑکی موٹرسائیکل چلا کر آتی ہے اپنی بائیک کالج کی پارکنگ میں لگا کر اسائنمنٹ جمع کروانے کی غرض سے کالج کی بلڈنگ کے اندر داخل ہو رہی ہوتی ہیں کہ ایکدم سے لڑکی کے پیچھے نارنجی پٹکے لپیٹے لڑکوں کا ایک گروپ جے سری رام جے سری رام کے نعرے لگا کر اسے زچ کرنا شروع کر دیتا ہے،مسکان خان ان سے ڈرنے کی بجائے ــ’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعرے  لگاتے ہوئے ان کا مقابلہ کرتی ہے اس دوران اسکے حوصلے بلند نظر آرہے ہیں وہ رتی برابر بھی اس جتھے سے گھبرا نہیں رہی یہ وڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ہر کسی نے اس لڑکی کی ہمت اور بہادری کو سراہا اور اسے ہراساں کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی اور مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔اسکے بعد مسکان کے انٹرویوز بھی ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب ایک جتھا میرے پیچھے آرہا تھا میں بالکل پریشان نہیں ہوئی اور اُس روز میں اپنی اسائنمنٹ جمع کروانے کیلئے کالج گئی تھی ،صرف برقع میں ہونے کی وجہ سے انتہا پسندوں کا یہ جتھا میرے پیچھے آیا اورشورشرابا کرنا شرع کر دیا جس کے نتیجے میں ،میں نے بھی اللہ اکبر کہنا شروع کر دیا بلکہ باآواز بلند اللہ اکبر کہنا شروع کر دیا۔کرناٹک کے ضلع منڈیا سے تعلق رکھنے والی مسکان سے پوچھا گیا کہ احتجاج کرنے والوں کو اس سے قبل بھی دیکھا ہے؟ جس کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ دس فیصد کالج کے تھے شاید باقی بیرونی عناصر تھے ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ہماری تعلیم ہماری ترجیح ہے، وہ ہماری تعلیم برباد کر رہے ہیں‘‘  وہ انٹرویوز میں بھی باہمت نظر آئیں اور انہوں نے کہا کہ وہ حجاب پہننے کے اپنے حق سے متعلق جدوجہد جاری رکھیں گی۔واضح رہے کہ بھارت کی ریاست کرناٹک میں حجاب کا تنازعہ اُس واقعہ سے شروع ہوا، جب ریاست کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک استاد نے حجاب کرنے والی طالبات کو کلاس میں بیٹھنے سے روک دیا اور کہا کہ اگر وہ کلاس میں بیٹھنا چاہتی ہیں تو اپنا حجاب اتار دیں۔اس قسم کی پابندی اور شرائط کے نتیجے میں طالبات کا کہنا تھا کہ وہ حجاب کے بغیر اپنی کلاس میں نہیں بیٹھیں گی،اس تنازعے نے شدت اختیار کی تو کرناٹک حکومت نے سرکاری طور پر حکم نامے سے ریاست کے تمام تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کردی۔یہی وجہ ہے کہ مسکان کے ساتھ کالج کی حدود میں چند روز قبل یہ واقعہ پیش آیا ۔حجاب پر پابندی کو لیکر بھارت میں مظاہرے بھی ہوئے لیکن سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مایوسی کے علاوہ کچھ نہ دیا بلکہ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کیس میں کرناٹک ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔اس کے علاوہ بھارتی سپریم کورٹ نے حجاب کیس میں فوری سماعت کی درخواست کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس کیس کی سماعت میں انہیں کوئی جلدی نہیں اس ایشو کو قومی سطح تک نہ لیجانا جائے نہ پھیلایا جائے اور نہ ہی اسکو ہوا دی جائے ہمیں جب مناسب لگے گا ہم اس پر کاروائی کریں گے ۔بھارت میںہر جگہ مسلم خواتین اور لڑکیوں کی جانب سے مظاہرے کیے جا رہے ہیں ان مظاہروں کے نتیجے میںان کی گرفتاریاں بھی کی جا رہی ہیںاور تو اور کالج کی انتظامیہ نے یہاں تک کم ظرفی کا مظاہرہ کیا کہ مزاحمت کرنے والی طالبات کے موبائل نمبرز اور ان کے گھر کے پتے تک جاری کر دئیے۔اس حرکت پر بھی طالبات کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ان کی حوصلے بالکل ٹوٹیں گے نہیں اور نہ ہی وہ ڈر کر بیٹھ جائیں گی اپنے حق کی جنگ کو جس حد تک ہو سکا وہ لڑیں گی۔
کرناٹک کے وزیراعلی نے ٹوئٹر پر جاری کردہ پیغام میں جہاں مقامی افراد سمیت طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے امن و امان بحال رکھنے کی اپیل کی وہیں تمام ہائی سکولوں اور کالجوں کی بندش کا اعلان کرتے ہوئے متعلقہ افراد سے تعاون کی اپیل کی۔بھارتی فلم انڈسٹری سے جڑے بہت سارے ستاروں نے ایسے واقعہ کو شرمناک قرار دیا اور بھارت  سرکار کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بے شک ہم برقعہ اور حجاب کے حق میں نہیں ہیں لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کیونکہ کہ کیا پہنا جائے اور کیا نہیں اس کی آزادی ہر ایک کو ہونی چاہیے،تاہم بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے وزیر تعلیم اندر سنگھ پرمار بھی اسکولوں میں حجاب پرپابندی کیلئے انتہا پسندوں کی حمایت میں ہی کھڑے ہوئے انہوں نے کہا کہ حجاب یونیفارم کاحصہ نہیں لہٰذا اسکولوں میں حجاب لینے پر پابندی ہونی چاہیے، روایات پرسکول کے بجائے گھروں میں عمل ہوناچاہیے، سکولوں میں یونیفارم ضوابط پرسختی سے عمل درآمد کے لیے کام کیا جا رہا ہے ،ایسے بیانات کے بعد انہیں کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔انڈین ریاست کرناٹک میں تعلیمی ادارے کی حدود میں ہراساں کیے جانے کی وڈیو وائرل ہوئی تو مسلمان لڑکی مسکان سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان میں ’اللہ اکبر‘ ٹرینڈ کرنے لگا اور مسلسل یہ ٹرینڈ مقبولیت کی حدوں پر ہے۔مسلمان ہی نہیں ہندو، مسیحی اور ہر مذہب کا معتدل پیروکار مسکان کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ کسی مسلمان لڑکی کو محض برقعہ پہننے پر ڈرایا جائے یا برقعہ اتارنے پر مجبور کیا جائے۔
نوبیل انعام یافتہ’’ ملالہ یوسفزئی‘‘ نے بھی اس واقع پر شدید دکھ اور کرب کا اظہار کیا اور ٹویٹر پر اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’ ’حجاب میں لڑکیوں کو سکول جانے سے روکنا تشویشناک ہے ،خواتین کے کم یا زیادہ لباس پر اعتراض کا سلسلہ برقرار ہے‘‘انڈین رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’’مسلم خواتین کو پسماندہ رکھنے کی یہ کوشش روکی جانی چاہیے‘‘۔
 کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ’’ محبوبہ مفتی ‘‘نے ٹویٹ کیا ’’ایک مسلمان لڑکی کو دن دیہاڑے بنا کسی خوف کے ہراساں کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے غنڈوں کو حکومت میں موجود لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے، ایسے واقعات کو محض ایک واقعے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ بی جے پی کو امید ہے کہ ایسے واقعات انھیں یو پی کے انتخابات جیتنے میں مدد دیں گے‘‘۔
 کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ’’ عمر عبداللہ ‘‘نے بھی یہ ویڈیو ان الفاظ کے ساتھ شئیر کی کہ آج کے انڈیا میں مسلمانوں سے نفرت کو ایک عام سی بات بنا دیا گیا ہے، ہم اب وہ قوم نہیں رہے جو متنوع ہونے کا جشن مناتی ہے، اب ہم لوگوں کو الگ کرنا اور انھیں سزا دینا چاہتے ہیں۔
وزیر مملکت زرتاج گل نے بھی ایک ایڈیٹ شدہ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہی وہ صورتحال  ہے جس سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے مغرب کو خبردار کیا اوربھارت کو اقلیتوں اور خواتین کے لیے انتہائی خطرناک ملک بھی قرار دیا۔
مریم نواز شریف نے بھی اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ٹویٹر پر مسکان کی ڈی پی بھی لگا لی ۔
مشال حسین ملک نے کہا کہ ہر عمل کا برابر ردعمل ہوتا ہے! اپنے یقین کے ساتھ ثابت قدم رہیں چاہے آپ کو تنہا ہی کھڑے ہونا پڑے۔
 وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی اس حوالے سے ایک ٹویٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ جو #ModiEndia میں ہو رہا ہے وہ خوفناک ہے۔ بھارتی معاشرہ غیرمستحکم قیادت کی وجہ سے تیزی سے گر رہا ہے۔ حجاب پہننا ذاتی انتخاب ہے جیسا کہ کوئی بھی لباس جس کے لیے شہریوں کو اجازت دی جانی چاہیے۔

مزیدخبریں