چاچڑان شریف عظیم صوفی بزرگ وہفت اقلیم شاعر حصرت خواجہ غلام فرید کوریجہ کی جائے پیدائش اور تاریخی اعتبار سے اسکی اہمیت مسلمہ ہے۔ یہ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونیوالے دو اضلاع رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان رابطے کااہم ذریعہ ہے تام اب بے نظیر برج چالو ہونے سے پورے پاکستان کا یہ سنگم بن چکا ہے ۔آج کے جدید اور سائنسی دور میں چاچڑان شریف کی عوام اپنے مسائل حل نہ ہوتے پر مشکلات کا شکار ہیں۔ ہر سیاسی دور میں ان گنت وعدوں کے بعد عملی کام بہت کم ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں اس علاقے کے دو وزراء بھی شامل ہیں ، اس کے باوجود چاچڑان شریف کی حالت زار ایک سوالیہ نشان ہے۔ سابقہ حکومت میں سیوریچ سسٹم کی بحالی کا منصوبہ منظور ہواجسے پچھلے سال مکمل کیا گیا مگر اس منصوبے میں خاصی خامیاں ہیں۔ علاقہ کے مکین مختلف بیماریوں کا شکار ہیں حفطان صحت کے اصول نظر اندز ہونے سے چھوٹے بچے زیادہ متاثر ہیں۔
30 ہزار کی آبادی مواصلات کی اہم سہولت ڈاکخانہ سے محروم ہے_ڈاکخانہ کی اکلوتی برانچ بھی ختم کر دی گئی اور شہری ڈاک اور بنک کی سہولت سے محروم ہوگئے۔ سرکاری ملازمین، طلبہ و طالبات کو ڈاک لینے 15کلو میٹر دور ظاہر پیر جانا پڑتا ہے ۔ محکمہ مواصلات اور اعلیٰ آفسران کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ لوگوں کو یوٹیلٹی بلز ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں قائم بنیادی مرکز صحت میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر تو موجود ہے مگر دن 2 بجے کے بعد عوام ڈسپنسروں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں کوئی ایمر جنسی ہو جائے تو خان پور یا رحیم یار خان لیجانا پڑتا ہے اور اکثر مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجود پی ایچ یو کو اپ گریڈ کر کے آرایچ سی کا درجہ دیا جائے اور بی ایچ یو میں فوری طور پر ایمرجنسی یونٹ بنایا جائے۔لمحۂ فکریہ ہے کہ یہاں نہ جنازہ گاہ ہے اور نہ ہی عیدگاہ ۔کوئی فوت ہوجائے تو ریسٹ ہاؤس کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ قبرستان حشو شاہ کی چاردیواری نہ ہونے سے جانور قبروںکا تقدس پامال کرتے ہیں۔سرکاری سطح پر جنازہ گاہ، عید گاہ کیلئے، جگہ مختص کی جائے اور قبرستان کی چاردیواری بنائی جائے۔ محکمہ سوئی گیس نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ سردی ہو یاگرمی چاچڑاں شریف میںگیس نہ ہونے کے برابر ہے۔ چاچڑان شریف میں 3 گیس پوائنٹ منظور ہیں مگر سب ڈویژن خان پور کے ایس ڈی او نے1 پوائنٹ گیس کھول رکھی ہیں جس کیوجہ سے گیس صرف پائپوں تک محدود رہتی ہے چولہوں میں آتی ہی نہیں۔گیس کے کنکشن ہونے کے باوجود لوگ بازار سے مہنگے سلنڈر اور لکڑیاں خریدتے ہے۔15سال گزرنے کے باوجود محکمہ گیس سب ڈویژن خان پور نے بوسیدہ پائپ لائنوںکی مرمت اور صفائی تک نہیں کی اور شکایات کرنے کے باوجود کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ دوسال سے زیادہ ڈیمانڈ نوٹس بھرے ہوتے ہیں مگر اب تک کنکشن نہیں دیا جا رہا۔حکام اس طرف توجہ دیں۔شہرمیں قائم گورنمنٹ بوائز اینڈگرلز ہائی سکولوں میں سہولتوں کا فقدان ہے۔سب سے بڑا مسئلہ یہاں میٹرک کا امتحانی سنٹر نہ ہونا ہے۔ امتحانی اخراجات کے ساتھ وقت کا ضیاع الگ ہے۔ امتحانی سینٹر کیلے مطلوبہ طلباء کی تعداد اور تمام ضروری سہولیات موجود ہیں ۔اس لیے بہاولپور بورڈ کے حکام نہم و دہم کا سنٹر بحال کریں۔گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں کمروں کی کمی ہے۔ کھیلوںکے گراؤنڈ نہ ہونے کے برابر ہیں، ہال کی کمی ہے جبکہ گرلزسکول میں سٹاف کی کمی ہے۔دہم تک تعلیم ہونے کے بعد یہاں کی طالبات تعلیم کو خیر آباد کہہ کر گھر بیٹھ جاتی ہے, ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ گرلز ہائی سکول کو ااپ گریڈ کر کے انٹر کالج بنا دیا جائے طلبہ کے وظائف میں اضافہ کیا جائے۔
یہاںکے کسانوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔کھاد کا بد ترین بحران جاری ہے۔محکمہ زراعت اور ڈیلروں کی مبینہ ملی بھگت سے کھاد تین ہزار روپے فی بوری کسانوں کو مل رہی ہے۔ گندم اور گنا کیلے ، مطلوبہ کھاد نہ ملنے سے گندم کی پیداوار متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔کسانوں کو کھاد، ڈیزل، زرعی ادویات مہینگے داموں مل رہی ہے۔ محکمہ زراعت کی طرف سے ریلیف برائے نام ہے۔کسان کارڈ میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے جبکہ محکمہ مال کا لوگوں کے ساتھ سلوک بھی اچھا نہیں۔انتقال اور رجسٹری کیلئے سو بہانے بنائے جاتے ہیں۔ مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل کرنے کی آخری اُمید بلدیاتی ادارے بھی ختم کر دئیے گئے جبکہ بعد اب یونین کو نسل کا چارج دوبارہ سیکرٹری کے پاس ہے۔ یو نین کونسل چاچڑان شریف جو کہ ماضی میں ٹاؤن کمیٹی رہ چکی ہے اس کی پرانی حیثیت بحال کی جائے۔
دہی یونین کونسل ہونے کیوجہ سے فنڈز نہیں ملتا جبکہ یونین کونسل کی آبادی 30 ہزار سے زائد ہے لہٰذا اسے اربن یونین کونسل یا ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا جائے۔عملہ صفائی مستقل بنیادوں پر تعینات کیا جائے لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔