میرٹ کا بُت حسن انتظام کے عوامی کعبے سے نکال پھینک دیا گیا تھا۔ اللہ بھلا کرے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی کا ، انہوں نے اسے دوبارہ وہاں لا رکھا تو ہے ، دیکھئے اب ہمارے جاگیردار ، جرنیل ، سیاستدان اور بیورو کریٹ اسے وہاں ٹکنے بھی دیتے ہیں یا نہیں۔ ان کے ایک حالیہ تاریخی فیصلے کے مطابق ریاست کی زمین اشرافیہ کیلئے نہیں ۔ اس طرح انہوں نے ججز اور بیورو کریٹ کیلئے قیمتی رہائشی پلاٹ سکیم غیر آئینی قرار دے دی ہے ۔ انہوں نے قرار دیا ہے کہ عوامی نمائندے مفاد عامہ کے تحت ذاتی پالیسی نہیں بنا سکتے ۔ لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ اب تک ہمارے کار مختار کے سامنے مفاد عامہ کی بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد ہی رہا ہے ۔ انگریزی راج کا دیا ہوا فیوڈلزم ہی ہمارے معاشرے کا محور ہے اور یہی ہر تاریکی کا منبع ہے ۔
1949ء میں پاکستان مسلم لیگ نے پانچ رکنی زرعی کمیٹی بنائی جس کے صدر میاں ممتاز دولتانہ تھے اور اراکین میں شامل تھے بیگم شاہنواز، خان عبدالقیوم خاں قاضی محمد عیسیٰ اور حاجی علی اکبر۔ یہ کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ مغربی پاکستان کے نمایاں اور بڑے زمیندار خاندانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کا شجرہ نسب 1857ء سے پہلے کے زمانے تک جاتا ہو۔ وہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ انکی جاگیریں اور زمینداری کلی طور پر انگریز راج کی نوازشات کا نتیجہ ہیں۔ الٰہی بخش ایک ایسا ہی کر دار ہے ۔ "Chiefs and Families of Noble in Punjab"میں اس کا تفصیلی تعارف موجود ہے ۔
1857ء کے ’’غدر‘‘محاصرے میں وہ شہر میں رہا اور انگریزوں کو ’’باغیوں ‘‘کی نقل و حرکت سے پوری طرح باخبر رکھتا رہا ۔ اسے بعد میں 22830/-روپے سالانہ پنشن موروثی سے نوازا گیا۔ ان کے خاندان کو دہلی اور میرٹھ کے اضلاع میں کئی گائوں اور دیہات کے لگان اور موروثی ملکیت عطا کی گئی ۔ اسے آنریری مجسٹریٹ بھی بنایا گیا۔ اس کے تعارف میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ حاجی اور حافظ قرآن بھی ہے ۔ ایسے ہی کردار تھے ہماری جاگیردار کلاس میں ۔ لیاقت علی خاں جاگیردار طبقے کے نمائندے تھے۔ تمام نوابزادوں ، جاگیرداروں اور مولویوں کی طرح لیاقت علی خاں بھی ویسا ہی جمہوری عوام دوست پاکستان نہیں چاہتے تھے جیسا پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح ؒ کی 13ماہ کی تقاریر سے ظاہر ہوتا تھا۔
قائد اعظمؒ نے 1944ء میں آل انڈیامسلم لیگ کے دہلی اجلاس سے اپنے خطاب میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو تنبیہہ کر دی تھی ’’ یہاں میں جاگیردارو ںاور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک ایسے ظالمانہ اور شر پسند نظام کی پیداوار ہیں جس کی بنیاد ہمارے خون سے سینچی گئی ہے ۔ عوام کا استحصال ان کی رگوں میں خون بن کر گردش کر رہا ہے اسلئے ان کے سامنے عقل اور انصاف کی کوئی دلیل کام نہیں کرتی ۔ ہمارے ہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں انتہائی مشقت کے باوجود صرف ایک وقت کی روٹی میسر ہے ۔ کیا یہ ہے ہماری شاندار تہذیب ؟ کیا پاکستان کا مطلب یہ ہے ؟‘‘ خورشید کمال عزیز نے اپنی کتاب ’’دی مرڈر آف ہسٹری ‘‘ میں قائد اعظمؒ اور نوابزادہ لیاقت علی خاں کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات پر روشنی ڈالی ہے ۔
وہ لکھتے ہیں کہ انگریزوں اور کانگریس سے بڑی عجلت والی گفت و شنید کے نازک مراحل میں قائد اعظمؒ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ مسلم لیگ میں اندرونی نفاق موجود ہے ۔ اسی لئے وہ خاموشی سے لیاقت علی خاں کو برداشت کرتے رہے۔ اسی لئے جولائی 1947ء کو قائد اعظمؒ نے بھوپال کے نواب محمد حمید اللہ کو پاکستان آکر وزارت عظمیٰ سنبھالنے کی پیشکش کی ۔ مگر ان کی ذاتی مجبوریاں آڑے آئیں۔ تب حالات کی عجلت میں مجبوراً لیاقت علی خاں کو وزیر اعظم بنانا پڑا۔ قائداعظم ؒ کے لیاقت علی خاں سے کشیدہ تعلقات کی پوری کہانی محترمہ مادر ملت کی کتاب ’’مائی برادر‘‘ میں بھی موجود ہے۔ خورشید کمال عزیز مزید لکھتے ہیں کہ 1945ء میں لیاقت علی خاں نے کانگریس کو آمادہ کرلیا تھا کہ عمر رسیدہ اور قریب المرگ قائد اعظمؒ سے گفت و شنید کی بجائے وہ لیاقت علی خاں سے رابطہ رکھیں۔ چنانچہ اس رابطہ کے نتیجے میں کانگریس کے بھولا بھائی ڈیسائی اور لیاقت علی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ۔ اخبارات میں اس معاہدہ کی خبر چھپنے پر قائد اعظمؒ سخت ناراض ہوئے ۔ معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا گیا ۔ اس وقت قائداعظمؒ کے سیکرٹری شریف الدین پیرزادہ کے مطابق قائد اعظمؒ نے لیاقت علی خاں سے ملنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد قرار داد مقاصد منظور ہونے پر گیارہ حج کرنے والے درویش حسرت موہانی کا تبصرہ قابل غور ہے ۔ان کے مطابق اگر جناح زندہ ہوتے تو اس کی منظوری کی نوبت نہیں آنی تھی ۔ لیاقت علی خاں زمینداروں اور مولویوں کی مدد سے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ پاکستان کی عوام کے حق میں حاکمیت کو تسلیم کرتے تو پھر وہ استحصالی طبقوں کو نہیں بچا سکتے تھے ۔سو پھر جاگیروں کے حق میں شریعت سے جواز تراشے گئے ۔
1937ء کے انتخابات کے زمانہ میں پنجاب پر جاگیرداروں کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ بلا مقابلہ جیتنے والوں میں جمال خاں لغاری ، احمد یار دولتانہ ، مبارک علی شاہ ، رضا شاہ گیلانی ، محمدحیات قریشی ، فیروز خان نون ، چوہدری شہاب الدین ، پیر اکبر علی اور عبد الغنی دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ آج بھی ان کے اخلاف ہی سیاست کے مطلع پردکھائی دیتے ہیں اور یہی اب تک ہماری قسمتوں کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اُدھر ہندوئوں ، سکھوں میں بلا مقابلہ منتخب ہونے والوں میں گوکل چند نارنگ ، سر چھوٹو رام ، اجل سنگھ ، سنپورن سنگھ ، راجہ مہندر ناتھ ، جوگندر ناتھ، مکند لعل پوری کی آل اولاد کہیں نظر نہیں آرہی ۔ کیونکہ ہندوستان میں آزادی کے فوراً بعد ہی جاگیرداری ختم کر دی گئی تھی۔ پاکستان میں ابھی تک جاگیردار ہی سیاست پر قابض ہیں۔ یہ با اثر لوگ حکومت سے باہر ہوں تو حکومت کی دسترس سے باہر رہتے ہیں ۔ حکومت کے اندر ہوں تو قانون اور آئین کی بندش سے باہر ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں ، مذہبی تنظیموں اور پارلیمان پر یہی لوگ قابض ہیں۔ پاکستان میں کوئی پارلیمنٹ جاگیرداری کے خلاف کوئی قانون تو بہت بڑی بات ہے زرعی ٹیکس لگانے کی بھی سکت نہیں رکھتی۔ یاد رہے علامہ اقبالؒ 1926-1930ء تک پنجاب اسمبلی کے ممبر رہے ۔ وہ اپنی ہر بجٹ تقریر میں زرعی ٹیکس کا مطالبہ کرتے رہے ۔ اب پہلی مرتبہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عام آدمی کے میرٹ کی بات کی ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے ۔
٭…٭…٭