مسکان نامی لڑکی ، جو آر ایس ایس کے غنڈوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ’’ اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتی انکا مقابلہ کر رہی ہے ، بھارت میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی اقلیتوں کی آواز بن کر تمام دنیا میں ابھری ہے۔ حالانکہ مذہب کو ایک سائیڈ پر رکھ کر بھی بات کی جائے تو جیسے آجکل کے لبر ل کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کا لباس پہننا ہر کسی کا حق ہے اور اگر کوئی بھی فحش لباس پہننا کسی انسان کا بنیادی حق اور ذاتی مسئلہ ہے تو اسی اصول کے تحت حجاب یا چادر پہننا بھی کسی بھی لڑکی کا ذاتی مسئلہ اور حق ہے۔ بھارت کا مودی نواز میڈیا اس سب کو ’’ یونیفارم‘‘ کا مسئلہ اور سکول کالج انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ قانون کی خلاف ورزی بنا کر پیش کر رہا ہے لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ اگر ایسا کوئی قابل اعتراض قانون پاس کیا بھی گیا تھا تو ایسے کسی قانون پر عمل درآمد کروانا انتظامیہ کا کام ہے نہ کہ ذرد رنگ میں ملبوس آر ایس ایس کے غنڈوں کا۔ کیا یہ غنڈے ایسا کر کے قانون شکنی نہیں کر رہے؟ کیا انکے خلاف کوئی آواز اٹھی؟ کوئی کاروائی ہوئی؟
کسی بھی ملک کی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ اس ملک میں لسانی، علاقائی سمیت ، قومیت اور مذہب کے نام پر ہونے پر ہونے والی تفریق، فرقہ واریت اور دہشت گردی ہوتی ہے۔ اکثر ان سب کو ہوا دینے میں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہوتا ہے جن کا مقصد اس ملک کے عوام کو مختلف بنیادوں پر گروہوں میں تقسیم کرنا ، ان میں نفرتیں پیدا کر کے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن اگر ہم بھارت کی موجودہ حکومت کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ جو کام بھارت کے کسی بیرونی دشمن کے کرنے کے تھے وہ بھارت کی موجودہ حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم مودی خود نہایت خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔ مسٹر مودی اور انکی پارٹی کو بظاہر بابری مسجد کی شہادت کے بعد پذیرائی ملی۔ پھر مودی کی گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دور کو ابتدا میں بھارتی میڈیا نے ترقی کے شاندار دور کے طور پر پیش کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انکی پالیسیوں نے درحقیقت گجرات میں غربت، افلاس اور بیروزگاری کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا ( بحوالہ انڈین رزروّ بنک کا سروے 2013ء )۔ گجرات میں 2002 ء میں ہونے والی مسلمانوں کی نسل کشی بھی مودی سرکار کا ہی کارنامہ تھا۔ ان کے وزیر اعظم بننے تک دنیا ان کو ایک انتہا پسند اور دہشت گرد کے طور پر جانتی تھی جس کے امریکہ میں داخلے پر پابندی تھی ۔ مرکزی حکومت میں آنے کے بعد مسٹر مودی اور ان کی پارٹی کی پالیسی صرف مسلم کشی تک محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے بھارت میں ہر قسم کی فرقہ واریت اور نفرت کو فروغ دینا شروع کر دیا ۔ چاہے وہ علاقائی یا نسلی ہو یا لسانی اور مذہبی۔ مسلم دشمنی کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب بشمول بدھ مت، پارسی، کرسچن اور سکھوں کے خلاف مذہبی منافرت کو دل کھول کر ہوا دی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندوئوں کے لیے بھی بھارت کی زمین تنگ ہو چکی ہے۔ ان میں سب سے قابل ذکر ’’ دلت ‘‘ ہندو ہیں۔ ’’انڈیا گورنز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘‘ کی رپوٹ کے مطابق بھارت میں پرائمری سے پہلے سکول چھوڑ جانے والے بچوں میں سے نصف کے قریب ’’ دلت آبادی‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی سکولوں میں 80 فیصد سے زیادہ دلت بچوں کو نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیلتھ ورکر ز میں سے 65 فیصد سے زیادہ دلت آبادیوں میں قدم رکھنا پسند نہیں کرتے ۔ہریانہ میں ’’ دلت قوم ‘‘ کے بچوں میں سے 80 فیصد کے قریب خون کی کمی اور دیگر بیماریوں کا شکار ہیں۔ یاد رہے بھارت میں 167ملین دلت آباد ہیں۔
مسلمانوں کی بات کریں تو بابری مسجد کی شہادت اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی سے شروع ہونے والی داستان ابھی تک جاری ہے۔ کہیں مساجد شہید کی جا رہی ہیں تو کہیں گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ ہر غیر ہندو بھارتی کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ یا اپنا مذہب چھوڑ دو یا بھارت ۔مودی سرکار نے 2014 ء میں طاقت میں آنے کے بعد ہندوستان کو ایک سیکولر سے ہندو ملک میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آرایس ایس اور اور بی جے پی کے ’’ ہندو بھارت‘‘ میں ہندو کے علاوہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو زندہ رہنے اور برابر کے انسانی حقوق مانگنے کا حق نہیں چاہے وہ کوئی مسلمان ہو، پارسی یاعیسائی ہو یا کسی نچلی ذات کا ہندو یا دلت۔ ظاہر ہے عنقریب سکھوں کا نمبر بھی آنے والا ہے۔دراصل مودی سرکار اور بی جے پی کی پالیسیوں کی بنیاد ’’سوامی وناک دامودر‘‘ کے دیے ہوئے نظریے ’’ہندوّتا ‘‘ پر ہے۔ اس نظریے کے مطابق ایک ’’ ایک اکھنڈ بھارت‘‘ صرف ہندوئوں کی اونچی ذاتوں کے لیے ہے۔ نیچی ذات کے ہندوئوں کے کوئی حقوق نہیں ہے اور انکی پیدائش کا مقصد صرف اونچی ذاتوں کی خدمت ہے۔ مودی سرکار کی زیر سرپرستی بھارت کی انتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس اور ڈی ایس جے کا نظریہ ہے کہ بھارت کو کسی بھی طرح مسلمانوں سمیت تمام غیر مذاہب سے ’’پاک‘‘ کر دیا جائے۔ دیگر تمام مذاہب کو یا خود بھارت چھوڑ دینا چاہئے یا پھر انہیں زندہ نہیں رہنا چاہئے۔
ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی میں سے بیس فیصد بھارتی غیر ہندو ہیں۔ وہ کتنی دیر تک یہ سب امتیازی سلوک ، نفرت اور مظالم برداشت کریں گے؟ ابھی انکی زبانیں جینے کا حق مانگ رہی ہیں ، وہ وقت دور نہیں جب وہ اپنا یہ بنیادی انسانی حق بزور طاقت چھین لیں گے۔ میری یا کسی بھی پاکستانی کی خواہش نہیں کہ بھارت میں عوام ایک دوسرے کو مارنے کاٹنے کو دوڑیں لیکن مودی صاحب کی پالیسیوں کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا ہے۔