مقبول بٹ اور افضل گرو کون تھے؟اپنی قوم میں کیوں مقبول تھے اور بھارتی فوج کوکیوں مطلوب تھے ؟ مقبول بٹ شہید 18 فروری 1938 ء کوکپواڑہ کے ایک گاؤں تریہگام میں پیداہوئے ۔مقبول بٹ کی ولادت سے صرف دوبرس قبل کشمیری قوم 13جولائی1936ء کاایمان افروز معرکہ لڑچکی تھی جوتاریخ میں شہدائے کشمیرکے نام سے معروف ہے۔اس معرکہ میں 22 افرادنے اذان کی تکمیل کی خاطریکے بعددیگرے جانیں قربان کی تھیں ۔ جن22افرادنے13جولائی کے دن جانیں قربان کی تھیں مقبول بٹ اور افضل گرو انہی کے مشن کولے کر آگے بڑھے اوربڑھتے ہی چلے گئے یہاں تک 22جانبازوں کی طرح اپنی جانیں وطن کی آزادی پر نچھاور کرگئے۔سب سے پہلے اپریل 1965 ء میں مقبول بٹ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرسیاسی جماعت’محاذ رائے شماری‘ کی بنیاد رکھی اوراس کے پلیٹ فارم سے اپنی قوم کومنظم اورآزادی کی تحریک شروع کی تاہم مقبول بٹ کوجلدہی اندازہ ہوگیاکہ بھارت لاتوں کابھوت ہے جوباتوں سے ماننے والانہیں اس لیے وطن کے اس سجیلے اوربہادر جوان نے 13 اگست 1965 ء کو محاذ رائے شماری کا خفیہ مسلح ونگ این ایل ایف کے نام سے قائم کیا۔یہ وہ وقت تھاجب1965ء کوجنگ کواختتام پذیرہوئے ابھی صرف ایک سال ہواتھا۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان جنگ بندی کامعاہدہ ہوچکا تھا، مقبوضہ وادی میں کشمیری مسلمانوں کے لیے حالات انتہائی پریشان کن،ناسازگارتھے۔بھارتی فوجی آزادی کاجذبہ رکھنے والوں یا آپریشن جبرالٹرمیں پاکستانی کمانڈوکاساتھ دینے والوں کوپاگل کتوں کی طرح تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ان حالات میں مقبوضہ وادی میں ایک نئے سرے سے مسلح جدوجہدکاآغازکرنادل گردے کاکام اورشیرکی کھچارمیں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھالیکن مقبول بٹ توشیرکاحوصلہ رکھتے تھے وہ اس طرح کے حالات سے بھلا کہاں خوف زدہ ہونے والے تھے۔ چنانچہ مقبول بٹ کے تیارکردہ گوریلے،جانباز اورمسلح ساتھی بھارتی فوج کو بھاری جانی مالی نقصان پہنچانے لگے ۔بھارتی فوجی جن کے سینوں پرابھی پاک فوج کے آپریشن جبرالٹر 1965ء کی جنگ کے لگے زخم تازہ تھے۔حواس باختہ ہوگئے اورمقبول بٹ کی تلاش کرنے لگے یہاں تک کہ انہوں نے آزادی کے راہبر کے خفیہ ٹھکانے کامحاصرہ کرلیادونوں اطراف سے فائرنگ ہوئی جس میں مقبول بٹ کاایک ساتھی شہید ہو گیا جبکہ کرائم برانچ سی آئی ڈی کا انسپکٹر امر چند بھی جھڑپ میں مارا گیا۔ مقبول بٹ دو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیے گئے۔
سری نگر سنٹرل جیل میں ان پر بغاوت اور امر چند کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ اگست 1968 ء میں ان کو سزائے موت سنائی گئی۔ جب جج سزائے موت کافیصلہ سناچکاتوتواس نے مقبول بٹ کے چہرے کی طرف دیکھااس کاخیال تھاکہ چہرے پرغم،دکھ اورموت کی پرچھائیں ہوگی لیکن وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ مقبول بٹ کاچہرہ خوشی اورمسرت سے جگمگارہا تھا تب مقبول بٹ نے جج کو مخاطب کر کے کہا ’ جج صاحب! وہ رسی ابھی تیار نہیں ہوئی جو میرے لیے پھانسی کا پھندہ بن سکے۔‘چنانچہ کچھ ہی عرصہ بعدمقبول بٹ جیل سے فرار ہوگئے اور برف پوش پہاڑوں کو عبور کر کے 23 دسمبر 1968ء کو چھمب کے مقام سے آزادکشمیر میں داخل ہوگئے تاہم مئی 1976 میں وہ کچھ ساتھیوں سمیت جنگ بندی لائن عبور کر کے پھر مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ادھربھارتی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کوبھی ان کی آمدکی خبرہوگئی۔ وہ مقبول بٹ کی گرفتاری کی راہ پرلگ گئے آخرجان توڑجدوجہدکے بعدوہ آزادی کے اس ہیروکوپکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے خلاف مقدمات کی فائلیں پہلے سے موجودتھیں۔ انہی مقدمات کوبنیادبناتے ہوئے11 فروری 1984ء میں انھیں پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیااورجسدِ خاکی کو جیل کے احاطے میں ہی دفن کر دیا گیا۔تحریک آزادی کشمیر کا دوسرادرخشاں ستارہ محمد افضل گروہے جسے بھارتی حکمرانوں نے پارلیمنٹ پر جھوٹے حملے کے الزام میں 9فروری 2013ء بوقت صبح8بجے تختۂ دارپرلٹکادیا تھا۔افضل گرو جموں کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں پیدا ہوئے۔ 1986ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ سوپور میں ثانوی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ ایم بی بی ایس کا پہلا سال مکمل کر لیا تھا اور مقابلے کے امتحان کی تیاری میں تھے کہ دسمبر2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں انہیں گرفتار کرلیاگیا ۔ گرفتاری کے بعد حسب معمول افضل گروکو قیدوبند کی صعوبتوں اورمشقتوں سے گزارگیا، بے پناہ جسمانی تشددکیا گیا اورناکردہ گناہ بھی انکے سرتھوپ دیے گئے۔بھارتی پولیس اورتفتیشی اداروں کے پاس افضل گروکے پارلیمنٹ پرحملہ میں ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہ تھالیکن بھارت کے تفتیشی اداروں کے لیے کسی کشمیری کوکسی بھی جرم میں ملوث کرنے کے لیے اتناہی ثبوت کافی ہے۔ افضل گروبھی کشمیری تھا اوربدقسمتی سے اپنے تعلیمی سلسلے میں دہلی بھی جایا کرتا تھا۔تعلیمی سلسلے میںدہلی کاسفر اس کاجرم بن گیا اور اسے پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔گرفتاری کے بعد عدالت میں مقدمہ چلااور عدالت عظمیٰ نے 2004ء میں انہیں پھانسی کی سزا سنادی۔ افضل گرو کو 20 اکتوبر 2006 ء کی صبح چھے بجے پھانسی ہوناتھی لیکن ان کی اہلیہ تبسم گرو نے اپنے بے گناہ شوہر کی رہائی کے لیے آخروقت تک قانونی جنگ لڑی اور بھارتی صدر پرناب مکھرجی کے ہاںرحم کی اپیل کی جس کے بعد یہ معاملہ التوا میں رہا۔ 16 نومبر 2012ء کو بھارتی صدر نے افضل گورو کی رحم کی درخواست وزارت داخلہ کو واپس لوٹا دی تھی۔بھارتی میڈیا کے مطابق افضل گرو کو ہفتے کی صبح 5 بجے جگایا گیا، انہوں نے نماز ادا کی پھر تین گھنٹے بعد پرسکون انداز سے خود تختہ دار تک چل کر گئے، جب پھانسی کا پھندا ان کے گلے میں ڈالا گیا وہ اس وقت بھی بالکل پرسکون تھے ، ان کے چہرے پر کسی قسم کا کوئی خوف وہراس نہ تھا ۔ مقبول بٹ، افضل گرو، برہان مظفروانی، ڈاکٹرعبدالمان وانی، پروفیسررفیع، ابوحنظلہ نویدجٹ، عبدالماجد زرگر، سبزار احمد صوفی، کمانڈر زینت الاسلام، شکیل احمدڈار، الغرض شہداکی ایک لمبی فہرست ہے ۔