ہر وہ ادارہ جہاں انسان تعلیم حاصل کرتا ہے اس کے لیے مادر علمی کا درجہ رکھتا ہے۔مادر علمی کی عظمت اور مقام بہت بلند ہے۔ ملک عزیز میں کالجوں اور جامعات کے حوالے سے تو شاندار تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن سکولوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ وہ تعلیمی ادارے جو انسان کی تعلیمی بنیاد بناتے ہیں ، لکھنا اور پڑھنا سکھاتے ہیں ان کو بھی خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔ ضلع جہلم میں کوہستان نمک کے دامن میں آباد ایک دور افتادہ بستی گول پور کے گورنمنٹ ہائی سکول کے سابق طلباء مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے مادر علمی کی صد سالہ تقریب کے موقع پرایک منفرد اور پروقار تقریب کا اہتمام کر کے روشن مثال قائم کر دی۔ تقریب میں اساتذہ کرام اورسابق طلباء کی کثیر تعدادنے شرکت کر کے مادر علمی سے محبت اور عقیدت کا ثبوت دیا۔ اس یادگار تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک اور حمد و نعت کے ساتھ ہوا جس کی سعادت بالترتیب قاضی تنویر احمد اورراجہ محمد عدنان نے حاصل کی۔ قومی ترانہ اور دعا’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘‘ نے اسمبلی کے مناظر تازہ کر دیے۔ نظامت کے فرائض راجہ عبدالرحمن نے ادا کیے۔ صدرمدرس جناب کامران فیروزحیدر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور جناب مبشر سلیمان نے سکول کی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا۔ اہلیان گول پور کی طرف سے اساتذہ اوردیگر عملہ کو تعریفی اسناد پیش کی گئیں۔ راقم الحروف نے صدارتی خطاب میں مادر علمی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ وصال فرما جانے والے ادارہ کے عظیم اساتذہ اور سابق طلبأ کے لیے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔
مادر علمی سے محبت و عقیدت ایک فطری جذبہ ہے۔ جس ادارہ کی گود میں ہم نے کئی سال گزارے اور جس نے ہمیں لکھنا، پڑھنا سکھایا اس کی دعوت پرحاضر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں آج بھی اس ادارہ سے اتنی ہی محبت اور عقیدت ہے۔آج ہم جو کچھ بھی ہیں مادر علمی کے طفیل ہیں۔مادر علمی کی تقریب میں مہمان کی حیثیت سے شرکت کرنا ایک دلچسپ اور سہانا تجربہ تھا۔راقم الحروف نے اس سکول میں تعلیم کے ابتدائی آٹھ سال گزارے۔ یہ آٹھ سال میری زندگی کا بیش قیمت سرمایہ ہیں سکول کے حوالے سے کتنی ہی خوبصورت اور حسین یادیں ماضی کا بہترین حصہ ہیں۔ اب بھی جب گاؤں جاتا ہوں اس دانش گاہ میں کچھ پل لازمی گزارتا ہوں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تعلیم کے بغیردنیا کی کوئی قوم نہ ترقی کر سکتی ہے اورنہ ہی کوئی قوم مہذب ہوسکتی ہے۔ ملک عزیزکے مسائل اور ترقی نہ کرنے کی بڑی وجہ تعلیمی پسماندگی ہے۔ جب قومی پیداوار کا صرف دو سے لے کرچار فی صد تعلیم پر خرچ ہوگا تو یہی کچھ ہو گا۔ اس کا مطلب تو یہی نظر آتا ہے کہ یا تو ہم تعلیم کی اہمیت سے آگاہ نہیں یا ہم خواب غفلت کا شکار ہیں۔ آج کے سائنسی دور میں بھی جس ملک کا آدھے سے زیادہ مستقبل سکول میں نہیں جاتا وہ خاک ترقی کرے گا۔ملک بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔حکومتوں کی پالیسی کبھی بھی تعلیم اور سرکاری تعلیمی اداروں کی سرپرستی نہیں رہی۔ اللہ کرے یہ تعلیمی نظام قائم و دائم رہے اگرخدانخواستہ اس نظام کو کچھ ہوا تو متوسط اور غریب طبقہ پتھر کے دور میں چلا جائے گا کیونکہ نجی تعلیمی اداروں کے
اخراجات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ فوری طور پر سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کو بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی حکومت کو ایسے انقلابی اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ والدین کا سرکاری سکولوں پر اعتماد بحال ہو سکے۔ گزشتہ حکومت کے چند اقدامات کی وجہ سے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔گھوسٹ سکولوں کو بند کیا گیا ، اساتذہ کی حاضری کو بہتر کیا گیا اور سکولوں کی عمارتوں میں کافی بہتری لائی گئی۔ اساتذہ کرام کی تنخواہیں بھی معقول ہیں اب تواساتذہ کرام کو چاہئے کہ مقدس فریضہ کو احسن طریقوں سے پورا کریں تاکہ معلم کا وقار بحال ہو سکے۔ اس کے ساتھ معاشرہ کو بھی اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔
جب سے تعلیم مقدس فریضہ سے تجارت بنی ہے، نجی تعلیمی ادارے مال بنانے والی صنعت اورمعلم ٹیوٹربن گئے تعلیمی و تربیتی نظام تباہ و برباد ہوتا جارہا ہے۔گلی محلوں شہروں میں پرائیویٹ سکولوں کے جال بچھ گئے ہیں۔اگرچہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ نجی سکولوں کے اساتذہ سے زیادہ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ تربیت رکھتے ہیں اس کے باوجودسرکاری سکولوں کا نظام زوال کا شکارہے تعلیم کا معیار گررہا ہے۔ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے والدین اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں داخل کروا رہے ہیں۔ سانحہ یہ ہوا کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے نجی تعلیمی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کی وجوہات جاننا اور ٹھوس منصوبہ بندی محکمہ تعلیم کی ذمہ داری ہے۔ بہترین حل یہ ہے کہ پالیسی سازوں، سرکاری ملازمین اور وزیروں مشیروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوائیں۔اسی صورت ہی معاملات ٹھیک ہو سکیں گے ۔