تعلیم… ملکی ترقی کا اہم ذریعہ مانا جاتا ہے یہاں اس بات کا شعور ضروری ہے کہ ترقی تصور معاشی ترقی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں سماجی نشوونما کا پہلو نمایاں اور اہم حیثیت رکھتا ہے. بہت سی انسانی مہارتیں جو ماضی میں انتہائی اہم سمجھی جاتی تھیں دور حاضر میں کچھ متروک ہو چکی ہیں. مستقبل قریب میں ایسے روزگار سامنے آئیں گے جو آج ہمارے حاشیہ خیال میں نہیں ہیں. اس طرح یہ سخت مقابلے کی صدی ہے. وہ مہارتیں جو 21ویں صدی میں کارآمد ہو سکتی ہیں, ان میں مصنوعی ذہانت، تنقیدی سوچِ، تخلیقیت شامل ہیں. یہ مقام غور فکر کے قابل ہے کہ کیا ہمارے تعلیمی ادارے دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ماحول فراہم کر رہے ہیں.ہمارے تعلیمی مسائل میں جو سر فہرست مسائل ہیں ان میں کم شرح تعلیم، تعلیم فراہم کرنے کیلئے وسائل میں کمی، بچوں کا ڈراپ آؤٹ, غیر حقیقت پسندانہ نصاب، ناقص امتحانی نظام، غیر تربیت یافتہ اساتذہ شامل ہیں. مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بنیادی مسائل ک حل کرنے کی ضرورت ہے. ہماری خوش بختی ہے کہ ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں پر علم, سائنس اور ٹیکنالوجی کی ذریعے معیشت اور داخلی مسائل کو حل کرنے کے طریقے ہمارے سامنے موجود ہیں. دنیا کی کوئی طاقت ان ذرائع کو اختیار کئے بغیر ترقی کی طرف گامزن نہیں ہو سکتی ۔ معیاری معیشت اس وقت یقینی بنتی ہے جب آپ کے پاس علم، سائنس و ٹیکنالوجی اور وسائل انسانی صلاحیتوں کو بڑھانے پر خرچ کئے جاتے ہیں. جن قوموں نے مندرجہ بالا ذرائع کو استعمال کیا ہے انہی قوموں نے تعمیر و ترقی کی منزل کو پایا ہے۔ ہمارے سامنے جرمنی اور جاپان کی مثال موجود ہے یہ دونوں ممالک جنگ کی تباہ کاریوں کی بدولت برباد ہو گئے تھے. جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو امریکی ایٹمی ہتھیاروں کا بد ترین نشانہ بنا تھا.۔آج جرمنی اور جاپان کی معیشت دنیا بھر اولین معیشت میں شامل ہیں۔ دونوں ممالک نے یہ ترقی علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل کی ہے. پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو سمجھنا چاہیے کہ وہ مستحکم سماجی، معاشرتی و اقتصادی ترقی کئے بغیر عالمی سطح پر عزت و وقار حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ ساری ترقی کا مکمل طور پر انحصار علم سائنس و ٹیکنالوجی کی مہارت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے. ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ علم کا مطلب محض ڈگریاں تقسیم کرنے کا نام نہیں ہے. گزشتہ 3عشرون میں پاکستان میں پبلک سیکٹر، پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کو اچھا خاصا فروغ حاصل ہوا ہے. پاکستان میں صحت اور تعلیم کے کئی پرائیویٹ اداروں نے قومی خدمت کے بجائے ان کو حصول زر کا ذریعہ بنا لیا ہے. تعلیمی میدان میں نوجوانوں کی بہت قلیل تعداد ہے جو بین الاقوامی سطح کے معیار پر پورا اترتی ہے. مناسب تعلیم اور علم کسی فرد کو کامیاب انسان بننے کی راہ دکھاتے ہیں. اچھی اور معیاری تعلیم سماجی بہبود اور انسانی خدمت کے جذبات کو فروغ دیتی ہے. اگر ہمارے تعلیمی ادارے اعلی معیار کے افراد تیار کر رہے ہوں تو یہ بات ہمارے لئے باعث فخر ہونی چاہیے ۔ ایک اور اہم بات پیش نظر رکھنی چاہیے تعلیم یافتہ افراد میں مہارت اور پروفیشنلزم کافقدان ہو گا تو ہمیں اپنی سماجی و اقتصادی مشکلات پر قابو پانے میں مشکلات پیش
آئیں گی۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سرد جنگ کے زمانے کی بڑے ملکوں کے دھڑوں شامل ہونے کی جو سہولتیں فی سبیل اللہ میسر تھیں وہ زمانہ بیت چکا ہے. 1991 سے موجودہ دور تک امریکہ سپر پاور کے طور پر اپنی ترجیحات کے مطابق بین الاقوامی نظام کو ڈھالنے کی کوششوں میں مصروف رہا ہے امریکہ کو اپنا ورلڈ آڈر مکمل طور نافذ کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی لیکن امریکہ نے اہم عالمی کھلاڑی کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے. امریکہ آج بھی دنیا میں سب سے بڑی معیشت اور مضبوط ترین فوجی طاقت کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ انسانیت کی خوش قسمتی تھی کہ 21صدی کے پہلے عشرے میں تنہا و یکتا عالمی سپر پاور کی بجائے دنیا اب کثیرالجہتی طاقتوں کا محور بن گئی ہے. طاقت و جبروت کے نئے مراکز جیسے جاپان، انگلینڈ، یورپی یونین، روس اور چین ابھر کر سامنے آ گئے ہیں. یہ سب عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے باہمی طور اپنے اپنے دائروں میں ایک دوسرے کے تعاون کی طلبگار رہتی ہیں. ہمارے لئے بے حد ضروری ہے کہ ہم جان پائیں کہ ان ممالک نے بین الاقوامی نظام میں قابل ذکر اہمیت کیسے حاصل کر لی ہے. جواب دیوار پر لکھا نظر آگیا ہے انہوں نے علم سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ مہارتوں کو ترجیح دی جس نے انہیں معیاری معیشت اور فوجی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ مشرقی اور جنوبی ایشیا کے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے 1960کی دہائی میں پاکستان کو معاشی ترقی کے حوالے سے ماڈل قرار دیا تھا. اب وہی ممالک علم سائنس اور ٹیکنالوجی اور معیشت کے حوالے سے ہمارے رہنما بننے کے قابل ہو چکے ہیں
تعلیمی ادارے،دور حاضر کے تقاضے
Feb 14, 2022