اسلام آباد‘ لاہور‘ خانیوال‘ میاں چنوں (خبر نگار خصوصی‘ خبر نگار‘ خصوصی نامہ نگار‘ نامہ نگار‘ سپیشل رپورٹر‘ نمائندہ نوائے وقت) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش قطعاً گوارا نہیں کی جائے گی چنانچہ ہجوم کے تشدد کو نہایت سختی سے کچلیں گے۔ اتوار کو اپنے ایک ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ میں نے آئی جی پنجاب سے میاں چنوں واقعے کے ذمہ داروں اور فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہنے والے پولیس اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے بارہا اپنے نظام تعلیم میں تباہ کن شدت پسندی کی طرف توجہ دلائی‘ سیا لکوٹ اور میاں چنوں جیسے واقعات عشروں سے نافذ تعلیمی نظام کا حاصل ہیں‘ یہ مسئلہ قانون کے نفاذ کا بھی ہے اور سماج کی تنزلی کا بھی ہے۔ تشدد کے بعد قتل کے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ اگر معاشرے میں سکول‘ تھانوں اور منبر کی اصلاح نہ ہوئی تو بڑی تباہی کے لئے تیار رہیں۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ ہجوم کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں‘ قوانین موجود ہیں‘ پولیس کو ان قوانین کو نافذ کرنا چاہئے۔ آئی جی پنجاب راؤ سردار نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو میاں چنوں واقعے کی ابتدائی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ واقعہ میں 33 نامزد اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ مقدمے میں سنگین جرائم اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ آئی جی پنجاب کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 120 سے زائد چھاپے مار کر62 مشتبہ افراد کو زیر حراست لیا گیا، زیرحراست افراد میں 15 مرکزی ملزمان بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اس معاملے میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق خانیوال کی تحصیل میاں چنوں کے قصبہ تلمبہ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت کے واقعہ پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 15 مرکزی ملزمان کی بھی شناخت کرکے انہیں گرفتار کرلیا۔ ملزمان میں محمد یعقوب، کاشف، محمد ریاض، ثقلین، محمد شان، آصف، ندیم، قیصر نذیز، عبد الغنی، محمد اسلم، محمد عامر، اعجاز، محبوب الرحمن، محمد بلال اور علی شیر شامل ہیں۔ پنجاب پولیس کے ترجمان کی جانب سے بتایا گیا کہ گرفتار ملزمان کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے شہری پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ چیئرمین پاکستان علماء کونسل و نمائندہ خصوصی وزیراعظم پاکستان حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ تلمبہ واقعے کے مجرمین کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور وہ کیفر کردار تک پہنچیں گے، خود ہی جج ، خود ہی مدعی، خود منصف کا نظام نہیں چل سکتا، توہین رسالت اور توہین مذہب کے قانون کی موجودگی میں خود لوگوں کو قتل کرنے کے رحجان کے خاتمے کیلئے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ تلمبہ واقعے میں قتل ہونے والا ذہنی معذور تھا، قاتلوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا ہے۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ روز خانیوال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے واقعہ کے ذمہ داران کو سخت سزا دلوانے کی ہدایت کی ہے۔ تلمبہ واقعہ میں ملوث 62 کے قریب لوگ گرفتار ہیں،300 افراد پر ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب خود صورتحال کو مانیٹر کررہے ہیں۔ جس نے کوتاہی کی چاہے وہ کوئی بھی ہو اسے سزا دی جائے گی۔ مشتاق ذہنی طور پر معذور تھا‘ مشتعل ہجوم نے جو کچھ کیا وہ کسی طور قابل قبول نہیں۔ سیالکوٹ واقعے پر بھی تمام مکاتب فکر نے ذمہ داروں کو سزا کے حوالے سے ایک موقف اپنایا۔ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ اس نوعیت کے کیسز کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ مظلوم مشتاق کے معاملے پر ہم سب کو ایک پیج پر ہونا ہے۔ ہمارے دشمن کو ایسے واقعات تقویت دیتے ہیں۔ قبل ازیں حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے ہمراہ ممبران امن کمیٹی سے بھی میٹنگ کی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خانیوال میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک فرد کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشتعل جتھوں کو بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا، یہ سلسلہ پورے معاشرے کو عدم تحفظ سے دوچار کردے گا، حکومت میاں چنوں واقعے کی شفاف تحقیقات کرائے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ چیئرمین پی پی نے کہا کہ میاں چنوں کے قصبے تلمبہ کے 17 موڑ پر ہونے والے سانحے نے ایک بار پھر پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ ہجوم کے ہاتھوں الزام کی بنیاد پر قتل کے مسلسل واقعات حکومتی رٹ پر سوالیہ نشان ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ عوامی مقامات پر ہجوم کی جانب سے قتل کے سانحات کی وجہ سے عالمی برادری میں بھی پاکستان کے امیج کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ سلسلہ پورے معاشرے کو عدم تحفظ سے دوچار کردے گا۔ الزامات کی بنیاد پر ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات کو روکنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ قانون کی عملداری کو اگر یقینی نہ بنایا گیا تو پھر افراد کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی ایسی روایت قائم ہوجائے گی کہ جس کو روکنا مشکل ہوگا۔ دوسری طرف تلمبہ کے نواحی علاقے میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے قتل ہونے والے ذہنی معذور رانا مشتاق احمد عرف ننھا ولد بشیر احمد فاروقی کی آبائی چک کے قبرستان میں تدفین کر دی گئی۔ مقتول کی نماز جنازہ چک 12 اے ایچ کی مرکزی غوثیہ جامع مسجد سے ملحقہ جنازہ گاہ میں ادا کی گئی جس میں اہل علاقہ کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مقتول کی تدفین کے موقع پر خانیوال پولیس کی بھاری نفری قبرستان اور رہائشگاہ کے قریب تعینات رہی۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے وقت اور تدفین کے وقت موجود علاقے کے لوگ واقعہ کو بہت بڑا ظلم قرار دیتے رہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی مذمت کرتے رہے۔ مقتول کے سوتیلے بھائی رانا ذوالفقار احمد نے بتایا کہ ان کا بھائی فٹبال کا بہترین کھلاڑی ہوا کرتا تھا۔ 16 سال پہلے اس کا ذہنی توازن خراب ہوا۔ مقتول کے علاج و معالجے کی ساری دستاویزات موجود ہیں۔ امام مسجد مرکزی جامعہ غوثیہ چک 12 اے ایچ جنہوں نے مقتول کی نماز جنازہ پڑھائی کا کہنا تھا شریعت میں واضح حکم موجود ہے کہ مجنون اور بچے پہ کوئی حد لاگو نہیں ہوتی اور اگر مقتول صحیح العقل بھی ہوتا تو اس کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ عدالت نے کرنا تھا ناکہ خود عام لوگ انصاف کے ٹھیکیدار بن جائیں۔وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی میاں چنوں واقعہ کی مذمت کی ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ ملزمان کی شناخت میں نادرا صوبائی حکومت کی معاونت کررہا ہے۔