اسلام آباد (وقائع نگار) ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ پندرہ روز بعد پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے عدالت نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک ہونے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کچھ گواہوں نے جھوٹی گواہیاں دیں جے آئی ٹی جائزہ لے‘ جے آئی ٹی نے دوسری پیشرفت رپورٹ جمع کرائی ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا دو رپورٹس جمع کرائی گئیں ہیں ایک رپورٹ فارن آفس کی جانب سے ہے جس میں مختلف اقدامات کے بارے میں بتایا گیا ہے جبکہ دوسری رپورٹ جے آئی ٹی کی جانب سے ہے نتائج بھی اخذ کئے گیے ہیں لیکن یہ حتمی نہیں ۔ کینیا کی جانب سے ابھی میوچل لیگل اسسٹنس میں ابھی تاخیر ہے کینیا نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں دوپولیس افسروں کو شوٹنگ پر چارج کیا گیا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے جے آئی ٹی سربراہ کو طلب کرتے ہوئے استفسار کیا جو کام آپ کے ذمہ لگایا تھا وہ ہوا یا نہیں؟ کینیا سے قتل کے متعلق کوئی مواد ملا ہے یا نہیں؟ ٹھوس مواد کا ذکر رپورٹ میں کہا ہیں جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کینیا میں حکام سے ملاقاتیں کیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہاکہانیاں نہ سنائیں، آپکو شاید بات سمجھ نہیں آرہی، جس پر جے آئی ٹی کے سربراہ نے کہا کینیا نے شواہد تک رسائی نہیں دی، جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا شواہد کی بات تو ٹرائل میں سامنے آئے گی مواد کیا جمع کیا ہے؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے اعتراف کیا کہ ارشد شریف قتل کے حوالے سے کینیا سے کوئی ٹھوس مواد نہیں ملا، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا ارشد شریف کے موبائل اور دیگر سامان کہاں ہے؟ جے آئی ٹی سربراہ نے کہا ارشد شریف کے موبائل اور آئی پیڈ کینیا کے پاس ہے، ارشد شریف کا باقی سامان موصول ہوچکا ہے،جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا جے آئی ٹی کے ارکان کہاں ہیں؟ کیا ان سب کو عدالت میں موجود نہیں ہوناچا ہیئے تھا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ نے کہا تین ارکان عدالت میں موجود ہیں، باقی ارکان کو بھی عدالت بلوا لیتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کینا کی حکومت نے رضا مندی تو ظاہر کی ہے لیکن کرائم سین بھی دیکھنے نہیں دیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پھر دوسرا راستہ تو انٹرنیشنل ایجنسی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا یاد رکھیں کہ کینیا ایک علیحدہ ملک ہے ہمارے دائرہ اختیار میں بھی نہیں ہم کسی پر الزام نہیں لگا رہے دیکھنا یہ ہے کہ جے آئی ٹی کو اب کیا اقدامات کرنے ہیں ہمیں دوسرے ممالک کا احترام بھی کرنا ہے‘ چیف جسٹس نے کہا کچھ غلطیاں پاکستان میں ہم سے بھی ہوئی ہیں پاکستان میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کردی گئی دیکھنا یہ ہے کہ ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کس نے پبلک کی؟ پتا کریں کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے کے پیچھے کون ملوث تھا،ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بغیر تصدیق پبلک کر دی گئی اور کسی نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جان بوجھ کر پبلک کی ہے، جس سے ہوا یہ کہ کچھ فراد نے احتیاط شروع کردی کینیا نے بھی پہلے کمیٹی سے مکمل تعاون کیا بعد اب پہلے کی طرح بات نہیں رہی شاید کچھ اس درمیان ہوا ہے اس لئے کمیٹی اس کی بھی تحقیقات کرے کہ یہ رپورٹ کس نے پبلک کی جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا عدالت نے رپورٹ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہوا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کینیا نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات میں تعاون نہیں کیا، لیکن ابھی تک باقاعدہ انکار بھی نہیں کیا گیا اسی سلسلے میں وزیر اعظم کی جانب سے بات کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے دوسرا ملک شامل ہے کینیا سفارتی زبانی میں ہمارا دوست ملک ہے بین الاقوامی مسئلوں پر ہمیں سپورٹ کرتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر کسی ملک سے تعلقات بہت اچھے نا ہوں تو تحقیقات کے لیے تعاون کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟ یو این کو شامل کرنے سے تعلقات کیسے خراب ہوں گے چیف جسٹس نے کہا کینیا آزاد ملک اور ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے،جو بھی حالات ہوں دوسرے ملک کے بارے میں احترام سے بات کیجئے، عدالت جاننا چاہتی ہے کہ اسپیشل جے آئی ٹی کو اب تک کیا ملا ہے؟ اسپیشل جے آئی ٹی آئندہ کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟ بتایا جائے، چیف جسٹس نے کہا پاکستان میں مقدمات اندراج کرانے والوں سے کیا تفتیش کی گئی جن کے نام انہوں نے لئے کیا ان سے تحقیقات کی گئیں جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے بار با ر ایک ہی کہانی سنائی جا رہی ہے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یقین دہانی کے باوجود کینیا میں قتل کی جائے وقوعہ پر اسپیشل جے آئی ٹی کو کیوں جانے نہیں دیا گیا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ارشد شریف قتل کے تین زاویے ہیں، پہلا ارشد شریف کو پاکستان سے بھاگنے پر کس نے مجبور کیا؟ دوسرا کیا تحقیقات ہوئی کہ ارشد شریف کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کس نے درج کرائے؟ کیا پتا لگایا گیا کہ ارشد شریف کو ایسا کیا دکھایا گیا کہ وہ ملک سے باہر چلے گئے؟جب تمام کڑیاں جڑیں گی تو خود ہی پتا چل جائے گا کہ ارشد شریف سے جان کون چھڑانا چاہتا تھا، جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کینیا کی پولیس جس کہانی پر تحقیقات کر رہی ہے۔ وہ قابل قبول نہیں،ارشد شریف قتل پر جے آئی ٹی بنانے کی یہی وجہ تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ارشد شریف پر مقدمات درج کرانے والوں سے بھی تفتیش کی ہے کچھ افسروں کے نام بھی آئے تو ان سے بھی پوچھ گچھ کی گئی، تاہم ارشد شریف پر مقدمات درج کرانے کے پیچھے کون تھا ابھی کچھ نہیں کہ سکتے، جس کے جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا عدالت کیساتھ کھیل نہ کھیلیں، پہلا مرحلہ تو یہی تھا جو مکمل نہیں ہوسکا،کیا جے آئی ٹی کینیا اور یو اے ای میں تفریح کرنے گئی تھی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ارشد شریف کے ٹویٹس اور پروگرامز کا جائزہ لیا جا رہا ہے دو ٹریلین بائیٹس کا ڈیٹا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا وقار اور خرم کا بیان بھی نہیں ہوا جس پر ایڈیشنل اٹارنی نے کہا فیکٹ فائنڈ نگ کمیٹی کو رسائی دی گئی تھی لیکن سپیشل جے آئی ٹی کو صرف پراسیکوٹر سے ہی ملوایا گیا جسٹس محمد علی مظہر نے کہاارشد شریف کے ساتھ موجود خرم اور وقار کا بیان کیوں نہیں لیا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یو این میں جانا کوئی مخالف اقدام نہیں چیف جسٹس نے کہا میں نے گواہیاں دیکھی ہیں نام نہیں لوں گا لیکن کچھ لوگوں نے سچ نہیں بولا اس بات کا جائزہ بھی جے آئی ٹی لے جس کے بعد ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ نے کہا ہم کینیا حکومت کی یقین دہانی کو دیکھ رہے ہیں ابھی تک کینا حکومت نے انکار نہیں کیا سمجھتے ہیں کہ ایک جرم ہوا کینیا میں بھی اپنی تحقیقات جاری ہے۔ پاکستانی شہید ہوا ہے عدالت اجازت دے کہ دو طرفہ تعلقات کے ذریعے ہی اسکو حل کیا جائے‘ چیف جسٹس نے کہا جے آئی ٹی کو خود دیکھنا ہوگا کہ آگے کیسے چلنا ہے، ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ارشد شریف کے اخراجات کون اور کیوں برداشت کر رہا تھا؟کس کے کہنے پر اخراجات اٹھائے جا رہے تھے۔ سامنے کیوں نہیں آیا؟ کئی ممالک کے شہریوں کا کیس ضلعی عدلیہ میں ہو تو وہ ہمیں خط لکھتے ہیں،پاکستانی سفارتخانہ بھی نیروبی میں وکلااور صحافیوں سے مدد لے، جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کینیا حکومت مختلف کہانی سنا رہی ہے اسی وجہ سے ہم نے سپیشل جے آئی ٹی بنائی ۔ہمیں کینیا حکومت کے کام کی دلچسپی نہیں ۔ یو این کو شامل کریں کیا مسئلہ ہے سیکریٹری خارجہ نے کہا ہمارے پاس بے نظیر کیس کی مثال ہے لیکن وہ ہمارے ملک کے اندر کی بات تھی اسی لئے سکیورٹی کونسل نے بھی اجازت دی چیف جسٹس نے کہا یہ ایک افسردہ کرنے دینے والا واقعہ ہے‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا یقینی بنائیں کہ صحافی برادری خود کو غیر محفوظ تصور نہ کرے جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا یہ تو ہماری بد قسمتی ہے جس کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا ہمیں ایک ماہ کا وقت دیا جاے تا کہ تحقیقات آگے بڑھ سکیں چیف جسٹس نے کہا ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں ارشد شریف قتل کیس میں کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں مکمل رپورٹ دیں،کینیا میں وکیل کریں اپنے قانونی حقوق کی معلومات لیں، جو کرنا ہے کریں لیکن حقائق تک پہنچیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سی این این کی صحافی اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئی،اسرائیل پر بین الاقوامی اتنا دباو ڈالا گیا کہ تحقیقات آگے بڑھانا پڑیں، اگر سپیشل جے آئی ٹی کو کوئی صحافی معلومات دے تو اس کے تحفظ کو بھی یقینی بنائیں، چیف جسٹس نے کہا اسپیشل جے آئی ٹی کا کینیا کا دورہ بے سود رہا۔ سپیشل جے آئی ٹی جانے سے پہلے مکمل طور پر تیار نہیں تھی، کینیا پر الزام عائد کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں، ارشد شریف کی اہلیہ نے عدالت میں پیش ہو کر کہا اسپیشل جے آئی ٹی کی رپورٹ کی مصدقہ کاپی فراہم کیا جائے، چیف جسٹس نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ آپ کو نہیں دے سکتے، جے آئی ٹی رپورٹ کے پبلک ہونے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں،پہلے ہی کینیا میں موجود دو بھائیوں سمیت تمام لوگ چھپ گئے ہیں، ابھی جے کیس کو مار چ تک ملتوی کر رہے دو ہفتوں میں رپورٹ دی جائے پھر کیس کو لگانے کا فیصلہ کریں گے۔