ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
ملک غریب ہو لیکن سیاستدان ارب کھرب پتی ہوں۔ عبادتیں ہوں لیکن ہر شخص کو دوسرے سے شکایتیں ہوں تو حج نماز روزہ محض دکھاوہ ہے۔ جس دیس میں لوگ کہتے کچھ ہوں، کرتے کچھ ہوں۔ یہ قول و فعل کا تضاد معاشرے میں انتشار اور توڑ پھوڑ پیدا کرتا ہے۔ کسی غریب سے غلطی ہو جائے یا کو ئی مجبور ہو کر چوری کر لے تو وہ برسوں جیل میں سڑتا رہتا ہے لیکن طاقتور کئی کئی قتل کر لے ، زنا کرے، قومی خزانہ لوٹ لے یا کرپشن کر کے ریکارڈ توڑ دے۔ قانون حرکت میں نہیں آتا۔ جس ملک کے جاہل نو دو لتیئے لاکھوں کروڑوں کی گا ڑیوں میں بے ہنگم میوزک اور جنونیوں کی طرح گا ڑیاں چلاتے ہو ں جبکہ دوسری طرف اعلیٰ تعلیمیافتہ سفید پوش اور متوسط طبقے کے نو جوان نو کریو ں کے لیے رُلتے ہوں۔ اس ملک پر عذاب نہیں آئیگا تو کیا من و سلویٰ نازل ہو گا۔ پاکستان جہالت، رسومات، توہمات اور بد عتوں میں گھِرا ہو ا ملک ہے۔ ان برا ئیوں نے ملک میں کرپشن پھیلائی ہے۔ جب خواہشات نفسانی بڑھ جائیں تو آدمی میں بُرے بھلے کی تمیز نہیں رہتی۔ جب نمود و نمائش کا چسکا پڑ جائے تو جائز نا جا ئز کا فرق مٹ جاتا ہے۔ پاکستان بنا تو اُس کے بعد 22 متمول خاندان بن گئے تھے۔ ایک طبقہ وہ تھا جو پاکستان کے علاقوں میں مقیم تھا اور خوشحال تھا۔ ایک بہت بڑی تعداد مہاجرین کی تھی جو بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تھے۔ انکی قربانیاں نا قا بل فرا موش تھیں۔ ان لو گوں نے اپنا گھر بار، زمینیں جا ئیدادیں سونا چاندی ملازمتیں، رشتے دار چھوڑے تھے۔ جان مال کی قربانیاں دیکر یہ لوگ پاکستان پہنچے تھے۔ ہزاروں لڑکیوں اور عورتوں نے قیامِ پاکستان کے وقت بے حُرمتی کے خوف سے اپنی جانیں دیدی تھیں۔ راستے میں بچوں عورتوں اور مردوں کو قتل کر دیا گیا۔ مہاجرین کی بڑی تعداد بھارت میں عزت آبرو اور خو شحالی کی زندگی گزار رہی تھی لیکن وطنِ عزیز کی خا طر لاکھوں لوگوں نے قربانی دی۔ پاکستان آ کر انھیں اسکا صلِہ نہیں ملِا۔ پاکستان سے بھی لاکھوں ہندئوں نے نقل مکانی کی جو نہایت امیر کبیر تھے اور اپنے گھر بار زمینیں، جا ئیدادیں سونا چاندی روپیہ پاکستان چھوڑ گئے۔ بد قسمتی سے خود غرض، لالچی اور عیار لوگوں نے اُن پر غا صبانہ قبضہ کر لیا۔ کچھ لوگوں نے جعلی کلیم جمع کرا کے زمینیں اور گھر ہتھیا لیے۔ اس مو قع پر پاکستان میں نو دولتیوں کی پہلی نسل تیار ہو ئی جھنوں نے جھوٹ، ریا کاری، لالچ اور دو نمبر طریقوں سے مال بنایا اور امیر بن گئے۔ یہ کرپشن کی پہلی کڑی تھی جس نے ایک ہنستے بستے زرخیز و توانا، سر سبز ملک میں کرپشن کے پنجے گاڑ دئیے۔ ہندئوں کی بے شمار نسلوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ لو گ مسلمان تو ہو گئے لیکن جو ہندئووانہ رسم و رواج اور برائیاں تھیں۔ اپنے ساتھ وہ بھی لے آئے۔ پھر ایک ہزار سال ہندئووں کے ساتھ رہنے سہنے سے مسلمانوں کے اند رگندی رسومات، توہمات اور بد عتوں نے جنم لے لیا۔ آج پاکستان انھی ناروا رسومات، توہمات، بد عتوں اور بد عنوانیوں بلکہ شرِک میں مبتلا ہے۔ اِن برا ئیوں نے پاکستانیوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ کروڑوں لڑکیوں کی شادی محض اسلیے نہیں ہو تی کہ سُسرال والے جہیز کا مطا لبہ کرتے ہیں۔ ساسیں اپنی بہوں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیتیںبلکہ رسموں کے نام پر لاکھوں کا جہیز دینے کے باوجود، غیر ضروری مطا لبات کر کے دکھاوے کے لیے لڑکی والوں کو کنگال کر دیا جاتا ہے۔ پھر ہمارے معاشرے میں دوسروں کی خوشی صحت خوبصورتی دولت عزت شہرت سے حسد کر کے لو گ خاص طو ر پر عورتیں کالے نیلے پیلے جادو، عملیات سفلیات کرتی اور کراتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں مصیبت اور عذاب میں ڈال دی جاتی ہیں۔ یہانتک کہ اولاد حا صل کرنے کی خا طر گناہ کے عمل سے گزرتی ہیں۔ دوسروں کی خوشیاں، خوشحالی، صحت، دولت عزت شہرت سے خا ئف ہو کر قبرستانوں میں عملیات کرتی ہیں اور حسدجلن بغض عناد اور انتقام کی تسکین کے لیے لوگوں کے گھروں میں تعویز ڈال دیتی ہیں خا ص طو ر پر رشتے تڑوانے کے لیے۔ اسی طرح شوہروں بھائیوں بیٹوں کو اپنا غلام بنانے کے لیے عملیات سفلیات کراتی ہیں۔ دوسری طرف جہالت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنی گا ڑیوں پر کالے رنگ کا کپڑا با ندھتے ہیں کہ نظر نہ لگے۔ راوی پر سب سے زیادہ جادو ٹونہ ہوتا ہے۔ دریائے راوی کے اُجڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بہاں تعویز دھاگے کئیے جاتے ہیں۔ لوگ طرح طرح سے گوشت دالیں چینی اور عملیات و سفلیات کے ذریعے راوی کے پانی میں یہ سب ڈا لتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے یہ عورتیں کس طرح سے دوسری خواتین کے لیے گڑھے کھودتی ہیں۔ لیکن اگر ایمان پختہ ہو تو ہر مسلمان کو یقین رکھنا چا ہیے کہ وقتی طور پر مصیبتیں، تکالیف، بیماری و پریشانیاں آتی ہیں کیونکہ آسمانوں پر خدا کے ہاتھ سے لکھے گئے مقدر یا قسمت کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ لیکن اس سے ہمارے معاشرے میں موجود ان جاہل لوگوں کے غلیظ کردار کا پتہ چلتا ہے۔ کسی بھی بڑی سڑک پر سے گزریں تو معلوم ہو کہ ہمارے لوگ کس قدر توہم پرست ہیں ، چیل کوئوں کو سر سے گو شت اتار کر ڈا لتے ہیں بلکہ موٹرسائیکلوں گاڑیوں اور دیگر اشیاء سے بھی پیسے اور گوشت اتارنے کے بعد دریامیں پھینک دیتے ہیں۔ یہی صورتحال نہر پر اقبال ٹا ون جاتے ہوئے یونیورسٹی کی دیوار کے ساتھ ساتھ اور شہر کی مختلف سڑکوں فٹ پھاتوں پر نظر آتی ہے۔ یہ گوشت پتہ نہیں کسی حلال جانور کا ہو تا بھی ہے یا نہیں جسے بیوقوف لوگ اپنے سروں سے اتار کر تعفن اور گندگی پھیلاتے ہیں۔ حرام اور مردار گوشت سے کیسے بَلا یا مصیبت ٹل سکتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو دیکھیں جو رنگ برنگی انگوٹھیاں اور پتھر پہنے ہوتے ہیں۔ بھٹو، ضیاء الحق، جونیجو، مشرف کے علاوہ تقریباً تمام حکمرانوں نے اقتدار حا صل کرنے کے لیے تعویز دھاگوں اور پیروں فقیروں کا سہارا لیا ہے۔ کسی نے اپنی کارکردگی سے کامیابی کی کو شش نہیں کی۔ افسوس پاکستان میں ان گھنائونی رسومات، توہمات، شرک اور بد عتوں نے ہمیں ضعیف الا عتقاد بنا دیا ہے۔ کیا یہ ایک مسلمان کا کردار ہے؟ کیا ہم وا قعی مسلمان ہیں؟ کیا ہم انسان بھی کہلانے کے مستحق ہیں؟؟؟