سانحات لیڈرشپ کا امتحان ہوتا ہے!

Feb 14, 2023

مطلوب احمد وڑائچ


 گلوبل ویلج    
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
یہ اوائل 2004ء کی بات ہے ۔میرا بیٹا اور بیٹی ترکی گئے ہوئے تھے اور اس دوران استنبول کے مضافات میں شدید زلزلہ آیا ، جس میں ہزاروں افراد جان کی بازی ہار گئے اور ہزاروں عمارتیں اور انفراسٹکچرتباہ ہوئے۔مجھے جب سوئٹزرلینڈ میں یہ اطلاع ملی تو میں فوری طور پر ترکی پہنچا اور میرے بچے جو اللہ کے کرم سے اس سانحہ میں محفوظ رہے انہیں اسی شہر میں ڈھونڈ کر واپس سوئٹزرلینڈ لایا۔ قارئین چند روز پہلے بھی ترکی میں ایک ہلاکت خیز زلزلہ آیا جس میں اب تک ترکی اور شام سمیت تیس ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں۔اور اتفاق سے میرا بیٹا اور بیٹی اپنی سالانہ چھٹیوں پر اب بھی ترکی میں ہی تھے۔لیکن چونکہ اب وہ جوان ہو چکے ہیں جیسے ہی میرا ان سے رابطہ ہوا تو میں نے انہیں یہ کہا کہ وہ فوری طور پر اپنے ترک بھائی اور بہنوں کی مدد کے لیے متاثرہ علاقوں میں جائیں اور ان کی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔قارئین سوشل میڈیا پر میں ایک مشہور و معروف پاکستانی مفتی صاحب کا ایک بیان سن رہا تھا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ترکی میں زلزلہ ان کے اعمال کی سزا ہے۔ تو جناب ان مفتی صاحب سے میری گزارش ہے کہ آپ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ اور گوگل کرکے دیکھ لیں کہ دنیا کی تاریخ ان قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے۔صرف گذشتہ سترسال میں ترکی میں چھوٹے اور بڑے ہزاروں زلزلے ریکارڈ پر آ چکے ہیں جن میں ہلاک شدگان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ترکی، جاپان اور میکسیکوجغرافیائی طور پر ان علاقوں میں آباد ہیں جہاں پر 5سے 9 ری ایکٹر سکیل کے زلزلے آنا معمول کی بات ہے اور ان کا سالانہ تناسب سینکڑوں میں ہے۔لہٰذا ہر سانحے اور آفات کو اللہ تعالی کے کھاتے میں ڈالنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔لیکن آج بھی دیکھیں تو ترکی اور جاپان ترقی کی منزلوں کو نہ صرف چھو چکے ہیں بلکہ بین الاقوامی طور پر ایک لیڈنگ ممالک میں ان کاشمار ہوتا ہے۔
جنگ کی تیاری کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے صحابہ کرامؓ کو اپنی مال و دولت سے حصہ ڈالنے کے لیے فرمایا گیا۔ اور صحابہ کرامؓ جو کچھ لے کر آئے۔ ایک صحابی سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ کتنا سامان لے کر آئے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ آدھا گھر چھوڑ آیا ہوں، آدھا میں لے آیا ہوں۔اس کے بعد ایک اور جیّد صحابی سے یہی سوال کیا اور انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ اور اولاد قربان۔ میں گھر میں کچھ بھی نہیں چھوڑ کر آیا، اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑ کر آیا ہوں، باقی میں سب کچھ اپنے ساتھ لے کر آیا۔ یہ ہوتا ہے ایثار اور قربانی کی انتہا۔ اور پھر یہی دونوں صحابہ کرامؓ خلیفۃ رسول ﷺ بھی مقرر ہوئے تھے۔ ایسی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ قائداعظم بانیٔ پاکستان انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی ساری جائیداد کچھ اپنے حقیقی وارثوں کے نام لگا کر باقی ساری کی ساری پاکستان کے نام کر دی تھی۔لاہور کا کورکمانڈر آفس یہ قائداعظم کی اپنی رہائش گاہ تھی یہ کورکمانڈر آفس ہے۔ اور پھر پنجاب یونیورسٹی جو کتنے میلوں پر محیط ہے یہ جائیداد بھی قائداعظم کی تھی۔ قائداعظم کی جائیداد پشاور میں،کراچی میں اور تقسیم کے بعد جو شہر بھارت میں آ گئے ممبئی اور دہلی میں بھی تھی۔ پاکستان میں موجود ساری کی ساری جائیدادیں قائداعظم نے اپنی زندگی میں ہی پاکستان کے اداروں کو وقف کر دی تھی۔ یہ ہوتی ہے لیڈرشپ۔ اور یہ لیڈرشپ اسی وقت ہی ختم نہیں ہو گئی تھی ۔ آج بھی آپ کو پاکستان میں ایسی بہت ساری مثالیں مل جائیں گی۔
جب تھوڑا سا ہم دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو آج طیب اردگان وہ سامنے آتے ہیں۔ طیب اردگان سے پہلے تھوڑا سا ذکر کر لیتے ہیں  ایک دور میں دنیا کے سب سے امیر شخص آئی ٹی کی دنیا کے سب سے بڑے نام بل گیٹس کا، انہوں نے اپنی جائیداد کا بہت بڑا حصہ وقف کر دیا تھا، اپنی اولاد کے لیے تھوڑا سا چھوڑا۔ ترکی میں شدید ترین زلزلہ آیا۔ ترکی کی طرف سے امدادی کاروائیاں شروع کر دی گئیں۔ ہمارے وزیراعظم شہبازشریف نے ترکی جانے کا اعلان کر دیا ۔ ترکی کی طرف سے ہمارے وزیراعظم کا استقبال کرنے سے معذرت کر لی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم امدادی کاروائیوں میں مصروف ہیں ۔ وزیراعظم صاحب جو پوری تیاری کرکے بیٹھے ہوئے تھے انہیں اپنا دورہ موخر کرنا پڑا۔طیب اردگان نے امداد کے لیے دنیا کو بھی کہا ۔ اپنے ملک میں بھی انہوں نے یہی کچھ درخواست کی۔ لیکن سب سے پہلے طیب اردگان نے اس میں حصہ ڈالا ۔ طیب اردگان کی طرف سے وہی کچھ کیا گیا جو کچھ قائداعظم محمد علی جنا ح نے پاکستان کے لیے کیا تھا۔ طیب اردگان نے اپنی ساری کی ساری جائیداد اپنے ملک کے نام کر دی ۔ حتی کہ انہوں نے اپنے لیے گھر تک بھی نہیں رکھا۔ اِدھر ذرا ہمارے حکمرانوں کو دیکھیں، ان پر کتنے بڑی بڑی مالیت کی کیسز تھے وہ سارے انہوں نے نیب کو کنٹرول کرکے، نیب قوانین میں ترمیم کرکے ختم کروا لیے ہیں اور ختم کیے جا رہے ہیں۔بیرون ملک کچھ ہمارے پاکستان کے سیاستدانوں کے کیسز چلے ،وہاں پر ان کو زلزلہ متاثرین کی امداد کے پیسے کھانے، خردبرد کرنے پر کیس چلا ،اس میں جرمانہ ہو چکا ہے۔ ہماری لیڈر شپ کے ایسے اقدامات کی وجہ سے پاکستان پر کوئی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جنیوا کانفرنس ہوتی ہے وہاں ڈونر کی طرف سے آٹھ ارب ڈالر سیلاب متاثرین کی امداد کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن اب تک پاکستان کو ایک پائی بھی نہیں ملی۔ جوبھی پیسے ملیں گے وہ سارے کے سارے ڈونر ممالک خود آکر پاکستان میں اپنی نگرانی میں خرچ کریں گے۔
بل گیٹس اور دیگر ایسے لوگوں نے یہ سارا کچھ کہاں سے سیکھاکہ اپنی ساری جائیداد اپنے ملک کے لیے،غریبوں کے لیے، مستحق افراد کے لیے وقف کر دی۔اس کی ہم پہلے مثال دے چکے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر کس طرح صحابہ کرامؓ نے اپنے اثاثے ،اپنی جائیدادیں جنگ کے لیے جمع کروا دی تھیں۔لیڈر بننے کے لیے ایسا ایثار کرنا پڑتا ہے، ایسی قربانی دینی پڑتی ہے۔

مزیدخبریں