ن لیگ کی تنظیم نو اور مریم نواز


 نباض …ڈاکٹر محمد مظہر قیوم 
     mazhareyehospital@yahoo.com
پاکستان میں یوں تو سیاسی نظام پارٹیوں پر مشتمل ہے۔پارلیمان کے الیکشن بھی پارٹی بنیادوں پر ہوتے ہیں لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ پارٹیوں کی مقبولیت پارٹی کے نظریات کی وجہ سے نہیں بلکہ شخصیات کی مقبولیت پر منحصر ہے۔پیپلز پارٹی ذوالفقار بھٹو کے سحرمیں اب تک مبتلا ہے۔ن لیگ نوازشریف کے نام سے ہی جانی جاتی ہے۔نواز شریف کو پارلیمانی سیاست کے لئے نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد بھی سب چانتے ہیں ن لیگ کا ووٹ نواز شریف کا ہی ہے۔اسی طرح تحریک انصاف عمران خان کا نا م ہے۔ہم نے پیپلز پارٹی کو ذوالفقار بھٹو سے بے نظیر بھٹو کی طرف منتقل ہوتے دیکھا ہے اور اب بے نظیر کے بیٹے بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی کی باگ ڈور زرداری کی رہنمائی میں سنبھالتے دیکھ رہے ہیں۔ن لیگ نوازشریف نے اپنی زندگی میں ہی مریم نواز کو پارٹی سونپنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو پارٹی کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مقرر کر دیا ہے اور وہ اب پارٹی کی تنظیم نو کے مشن پر ہیں۔ مریم نواز کو نواز شریف نے پاکستان بھیجا ہے دو تین ٹارگٹ دے کراول یہ کہ عمران خان کی مقبولیت کو چیلنج کرے اور اس کی حکومت کی غلطیوں اور حکومت سے اترنے کے بعد کی غلطیوں کو عوام میں اجاگر کرے دوئم یہ کہ ن لیگ کے کارکنوں اور سپورٹر ز کو متحرک کر کے آنے والے الیکشن کے لئے تیار کرے۔پارٹیاں جب سیاسی دبائو میں آتی ہیں تو عام کارکن مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں وہ پارٹی کے خلاف نہیں ہو جاتے نہ پارٹی چھوڑتے ہیں بلکہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال تحریک انصاف کی حکومت کے آخری چند ماہ ہیں جب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے تحریک انصاف کے کارکن اور سپورٹر خاموش اور مایوس لگتے تھے لیکن اپوزیشن میں آتے ہی جیسے ہی عمران خان نے نئی حکومت کو للکارا تو کارکن اور حمایتی جلسوں میں نظر آنے لگے اور کہا جانے لگا کہ عمران خان بہت مقبول ہو گئے ہیں جبکہ عمران خان کے جلسے تو ہمیشہ ہی بڑے ہوتے تھے اسی اصول کے تحت مریم نواز کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ن لیگ کے کارکنوں کا حوصلہ بڑھائیں جو کہ معیشت کی زبوں حالی اور مہنگائی کی وجہ سے دبائو کا شکا ر ہیں۔مریم نواز کے لئے یہ کام موجودہ حالات میں مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ن لیگ اس سے قبل پاکستان کی ترقی اور معیشت کو سنبھالنے کے حوالے سے بہت اچھا ریکارڈ رکھتی ہے۔وہ نواز شریف کے کارنامے اور عمران خان کی ناکامیاں گنوا کر اپنے کارکنوں اور سپورٹرز کا حوصلہ اور مورال بند کر لیں گی۔
مریم نواز عوامی سطح پر اپنا سیاسی مقام پہلے ہی بنا چکی ہیں بڑے لیڈر کو ایک خصوصیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے جوکہ عوام میں ان کے لئے کشش ہوتی ہے ایسے لیڈر کرشماتی شخصیت کے مالک کہلاتے ہیں۔ عوام ان کی جھلک دیکھنے اور ان کو سننے کے لئے جوق در جوق کھینچے آتے ہیں یہ خصوصیت قائد اعظم کے بعد ذوالفقار بھٹو کو حاصل ہو ئی پھر بے نظیر بھٹو بھی کرشماتی شخصیت کی مالک تھیں موجودہ دور میں نواز شریف ،عمران خان اور اب مریم نواز کو یہ سہولت حاصل ہے وہ مقرر بھی زبردست ہیں اور مجمع کو گرمانے اور اپنے ساتھ لے کر جانے کا فن جاتی ہیں۔
مریم نواز کو ن لیگ کی بھاگ ڈور مکمل طور پر سنبھالنے میں صرف ایک مشکل درپیش ہو گی جس کا سامنا بے نظیر بھٹو کو بھی کرنا پڑا تھا۔و ہ تھا کہ سینئر لیڈر جو کہ نواز شریف کے ساتھ دو تین دہائیوں سے کام کر رہے تھے ان کے لئے مریم نواز کو اپنا لیڈر تسلیم کرنا مشکل ہو گا۔میں بے نظیر کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے ظاہر ہو گا کہ اس موقعہ پر سمجھدار سینئر پارٹی رہنمائوں کو کیسا رویہ اپنانا چاہیے۔یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب بے نظیر بھٹو بیرون ملک سے پاکستان آکر سیاست کا آغاز کرنے والی تھی اور بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ پارٹی کی شریک چیئرپرسن کہلاتی تھیں۔ میں ایک روز چند لوگوں کے ساتھ لاہور میں ملک معراج خالد کے دفتر میں بیٹھا تھا ملک صاحب اس وقت پنجاب پیپلزپارٹی کے صدر تھے۔پارٹی کے سینئر ترین رہنمائوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ذوالفقار بھٹو کے زمانے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے تھے۔ایک صاحب ایک اخبار لئے ان کے دفتر میں داخل ہوتے ہیں اور ملک معراج خالد کو ایک خبر دکھاتے ہیں۔ملک صاحب نے خبر پڑھ کر اخبار میز پر رکھ دیا۔کسی نے پوچھا ملک صاحب کیا خبر ہے۔ ملک صاحب نے اخبار لانے والے سے کہا کہ پڑھ کر سنا دو۔چھوٹی سی ایک کالم کی خبر تھی کہ بے نظیر بھٹو نے جہانگیر بدر کو جو کہ بہت ہی جونیئر سیاستدان تھے کو پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر مقرر کر دیا ہے۔ملک صاحب کو جو کہ اس وقت تک پنجاب پیپلزپارٹی کے صدر تھے اس بات کا علم اس اخباری خبر سے ہوا تھا۔ایک صاحب نے ملک صاحب سے ان کا رد عمل پوچھا تو ملک صاحب نے بڑے پرسکون انداز میں جواب دیا  "بی بی نے اچھا کیا ہے۔اب بی بی نے واپس آنا ہے تو وہ چاہتی ہیں کہ ہم سینئر لوگ جونیئر کے ساتھ کام کرنے کی پریکٹس کر لیں "۔ یہ رد عمل تھا ایک جہاندیدہ سمجھدار سیاستدان کا۔ملک صاحب نے عہدہ سے استعفی دینے کا اعلان بھی نہ کیاا ور کہاجب جہانگیر بدر پنجاب کا صدر بن گیا ہے تو میرا عہدہ خود بخود ختم ہو گیا وہ پارٹی میں ہی رہے اور بعد میں بھی اہم ذمہ داریاں سنبھالتے رہے پیپلزپارٹی کے بہت سے سینئر رہنمائوں نے جیسا کہ عبدالحفیظ پیر زادہ اور ڈاکٹر مبشر وغیرہ نے خاموشی اختیارکر لی اور بے نظیر بھٹو کو اپنے طور پر پارٹی چلانے اور سیاست کرنے کا موقع دیا چند رہنمائوں نے جیسا کہ غلام مصطفی جتوئی اور ممتاز بھٹو نے اپنے دھڑے یا پارٹیاں بنائیں لیکن وہ جلد ہی ختم ہو گئیں۔
ن لیگ میں مریم نواز کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ن لیگ کے قائد اور ان کے والد موجود ہیں اور ان کے رہنمائی میں کام کریں گی اور جن سینٹر رہنمائوں کو شکایت ہو گی ان کو نواز شریف سمجھا لیں گے۔لیکن کچھ رہنما ئ￿  یقینا جیسا کہ چوہدری نثار پہلے ہی کر چکے ہیں پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ ن لیگ کے جو سیاسی رہنما ابھی سیاست میں رہناچاہتے ہیں ان کو نوازشریف کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے مریم نواز کو پارٹی منظم کرنے کا موقع بھی دینا چاہیے اور مدد بھی کرنی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن