ریڈیو کا عالمی دن 


 ذیشان حیدر 
ہر سال 13فروری کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت پوری دنیا میں ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ دنیا میں پہلی بار 13 فروری 2012ء کو اقوام متحدہ نے ریڈیو کے قومی دن منانے کا اعلان کیا عالمی دن منانے کا فیصلہ یو نیسکو کے 36ویں اجلاس میں نومبر 2011ء  میں ہوا ۔ ریڈیو انیسویں صدی کی ایک منفرد ایجاد ہے اگرچہ ریڈیو کی ایجاد سے پہلے گراہم بیل ٹیلی فون ایجاد کر کے دنیا کو حیران کر چکا تھا مگر مارکونی نے ایک چھوٹے سے جادوئی ڈبے سے انسانی آواز سنا کر پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ ابتدا ئی تجربات کے بعد 24دسمبر 1906ء کی رات 9بجے پہلی بار انسانی آواز اور موسیقی پر مبنی ریڈیو نشریات پیش کی گئی ۔ جب ریڈیو ایجاد ہوا تھا تو سمجھا جانے لگا کہ اخبار کا مستقبل تاریک ہو گیا اور اب ریڈیو ہی ابلاغ کا واحدذریعہ ہوگا اور اخبار کی ضرورت باقی نہیں رہے گی مگر ریڈیو کے بعد ٹیلی ویڑن میدان میں آگیا اس کے باوجود اخبار کی اہمیت برقرار رہی ریڈیو کی ایجاد نے انسانی زندگی میں انقلاب پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ریڈیو کی نشریات پوری دنیا میں یکساں پہنچتی رہی ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں روز بروز جدت آ رہی ہے ا نیسویں صدی میں ایجاد ہونے والے اس بلاغ کی اہمیت آج بھی جوں کی توں ہے ۔ انیسویں صدی میں ایجاد ہونے والے اس ابلاغی ذریعے نے اپنی اہمیت و افادیت ہمیشہ برقرار رکھی ہے اور اپنے سامعین تک تازہ ترین حالات و واقعات بر وقت پہنچائے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 85فیصد مجموعی آبادی ریڈیو سنتی ہے اور اس وقت دنیا بھر میں 51ہزار سے زائد ریڈیو اسٹیشنز کے ذریعے کروڑوں افراد ریڈیو کی نشریات سے محظوط ہوتے ہیں ۔ موبائل فون کی ایجاد نے ریڈیو کو ایک نئی زندگی بخشی ہے اور موبائل سیٹ میں ایف ایم بینڈ کی سہولت نے ریڈیو کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دیا ہے ۔ اب ہر سستے سے سستے موبائل فون میں بھی ایف ایم ریڈیو کی سہولت موجود ہے ۔ ریڈیو ہی ایک ایسا ابلاغی ذریعہ رہا ہے جس نے نہ صرف معاشرتی قدروں کو زندہ رکھا بلکہ نئی نسلوں کو منتقل بھی کیا ۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ذرائ￿ ع ابلاغ کوجدید ترین سہولیات میسر ہیں سیکنڑوں ٹی وی چینلز ، انٹرنیٹ، ٹویٹر، فیس بک، انسٹا گرام، یو ٹیوب کی موجودگی کے با وجود ریڈیو کی اہمیت و افادیت برقرار ہے بلکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ریڈیو سننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ سماجی ، معاشرتی ، اور سیاسی شعور کی بیداری میں ریڈیو پاکستان کا اہم کرد ار رہا ہے ۔ پاکستان جب وجود میں آیا تو اس وقت صرف تین ریڈیو اسٹیشنز ڈھاکہ، پشاور اور لاہور پاکستان کے حصے میں آئے ۔ اس وقت پاکستان کے ان بڑے شہروں کراچی، پشاور، لاہور، کوئ￿ ٹہ ، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، بہاولپور، حیدر آباد، خیر پور، ڈیرہ اسماعیل خان، لاڑ کانہ ، تربت ، ایبٹ آباد، سبی، گلگت، خضدار، اسکردو، ڑوپ، چترال، لورالائی ، میانوالی، سرگودھا، مٹھی، کوہاٹ، بنوں ، گوادر اور بھٹ شاہ میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہیں جہاں سے سیاسی ، سماجی، ، مذہبی ، علمی ، ادبی، اخلاقی ،زراعتی اور مختلف قسم کے ثقافتی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں پاکستان کا کوئی بھی ایسا کونہ نہیں ہے جہاں ریڈیو کی نشریات نہ پہنچتی ہوں اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ریڈیو آج بھی ذرا ع ابلاغ کا سب سے بڑا ، تیز ترین، موثر اور سستا ذریعہ ہے جہاں ٹیلی ویڑن ، اخبار یا کسی بھی دوسرے ذریعہ ابلاغ کی پہنچ نہیں وہاں صرف اور صرف ریڈیو ہی کی آواز پہنچتی ہے ریڈیو پاکستان جیسا بڑا نیٹ ورک کسی کے پاس نہیں خواہ وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری ۔ 1964ء میں جب پاکستان میں ٹیلی ویڑن متعارف ہوا تو ریڈیو پاکستان نے اپنے با مقصد میعاری پروگراموں کی بدولت اپنی اہمیت کو کم نہ ہونے دیا اور ریڈیو کا طوطی بدستور بولتا رہا 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں ریڈیو پاکستان کا کردار آج بھی بزرگوں کے ذہنوں میں نقش ہے جب ریڈیو پاکستان نے اپنے فوجی بھائیوں کے جذبے بلند کیے اسی طرح کوئی بھی نا گہانی آفت ہو یا دشمن کے پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب دینا مقصود ہوا تو ریڈیو پاکستان نے دوسرے قومی اداروں کے شانہ بشانہ قدم بقدم ساتھ دیا ۔ جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں ریڈیو کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ریڈیو پاکستان نے کئی ایسے نام متعارف کروائے جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا ۔ آج اگر نامور موسیقاروں ، فنکاروں ، ، اداکاروں ، دانشوروں ، مصنفوں ، صحافیوں پر نظر پڑے تو ان کی وجہ شہرت ریڈیو ہی ہو گا ۔ بدقسمی سے دوسروں کو شہرت و دوام بخشنے والا یہ قدیمی ادارہ برسوں سے وسائل کی کمی کا شکار ہے کئی دہائیوں سے یہ ثقافتی ادارہ حکومتی عدم توجیی کا شکار ہے ۔ آج ہمارے ملک میں نجی چینلز کی بھر مار ہے لیکن 75سال سے عوام کو تفریح، معلومات اور اطلاعات فراہم کرنے والے اس عظیم نشریاتی ادارے کو گوشہ گمنامی میں دھکیلا جا رہا ہے ۔ پوری دنیا میں ریڈیو کی افادیت ہونے کے باجود پاکستان میں ریڈیو کو وہ اہمیت کیوں نہیں دی جا رہی کیا ہم امریکہ، جرمنی، چین، جاپان، آسٹریلیا جیسے ملکوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں کہ ہ میں ریڈیو کی ضرورت نہیں رہی ۔ دہائیوں سے ریڈیو جیسا ادارہ فنڈز کی قلت کا شکار ہے اور ہر حکومت نے ریڈیو سے آنکھ چرائی اور ریڈیو کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں غفلت برتی ہے ۔ بلاشبہ زبان قوموں کے درمیان باہمی ارتباط اور ابلاغ کی سب سے بڑی رکاوٹ گردانی جاتی ہے اس رکاوٹ کو دور کرنے میں ریڈیو پاکستان کا کلیدی کردار واضح ہے ۔ نا مساعد حالات کے با وجود ریڈیو پاکستان 23قومی اور 10غیر ملکی زبانوں میں اپنی نشریات پیش کر رہا ہے۔ پاکستان میں کثیر زبانوں میں پروگرام پیش کرنے کا اعزاز اسی قدیمی ابلاغ ہی کو حاصل ہے رسم و رواج، روایات، سماجیات، ثقافت و تمدن کو نسل در نسل منتقل کرنے میں ریڈیو پاکستان کا بے مثال کردار نا قابل فراموش ہے ۔ ریڈیو پاکستان کی نشریات کی پہنچ ایشیاء اور مشرقی یورپ کے علاوہ ملک کی پچانوے فیصد آبادی تک ہے ۔ ریڈیو پاکستان کے آواز خزانے میں وہ نایاب آوازیں محفوظ ہیں جو کسی میڈیا کے پاس نہیں ۔ ریڈیو پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت نے  چارسال سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے جہاں انٹرینٹ، ٹیلی فون کی سہولیات معطل ہیں لیکن ریڈیو پاکستان کی آواز گونج رہی ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم اپنی تقریروں میں ریڈیو پاکستان کی نشریات کے حوالے دیتا ہے ۔ اس کے باجود ریڈیو کی طرف توجہ نہیں کی جا رہی ۔ زندہ قو میں اپنی قدیم روایات اور ثقافت کو زندہ رکھتی ہیں نہ کہ ختم کرتی ہیں اس لئے ہمیں ریڈیو کو اہمیت دینی چاہیے نہ کہ اسے ختم کرنا چاہیے ۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یورپ، افریقہ، مشرق وسطی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ریڈیو آج بھی ایک مضبوط اور مستند ذریعہ ابلاغ ہے ۔ ریڈیو کو جدید ٹیکنالوجی سے استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ ریڈیو ثقافت اور ادب کی تاریخ رکھتا ہے ۔ 
امریکی صدر آج بھی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتا ہے لیکن ہما رے ملک میں ریڈیو پر تقریر کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ہمارے ملک میں بھی وزرائ، حکومتی ترجمان، اعلی حکام ریڈیو کو اہمیت دیں تو یہ ادارہ ایک بار پھر ماضی کی طرح اپنا لوہا منوا سکتا ہے اور اپنے اخراجات خود اٹھا سکتا ہے ۔ ملک کے چاروں صوبوں میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے جب چاروں صوبوں کا انفرا سٹرکچر مکمل طور پر تباہ کر دیا تو ریڈیو ہی وہ واحد ابلاغی ذریعہ تھا جس سے لوگوں تک بلا تعطل معلومات بہم پہنچتی رہیں۔ افسوس کہ وطن عزیز میں ریڈیو جیسے قدیمی ابلاغ کو گزشتہ کئی ادوار سے مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور حکومتی ایوانوں میں اسے محدود کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے پر اقدامات کیے جا رہے ہیں اور اس ادارے کو حکومتی خزانے پر بوجھ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دنیا بھر میں ریڈیو کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے مزید وسعت دی جا رہی ہے ۔ریڈیو پاکستان کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل طاہر حسن ریڈیو پاکستان کو دوبارہ سے فعال کرنے میں دن رات جنگی بنیادوں پر مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں لیکن انھیں اس ضمن میں مکمل طور پر حکومتی سرپرستی و تعاون درکار ہے ۔ حکومتی سطح پر ریڈیو پاکستان کو اپنے اخراجات خود اٹھانے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینے کے لیے کہا جا رہا ہے جبکہ دیگر ممالک میں سرکاری ریڈیو کو اخراجات حکومتیں ہی برداشت کرتی ہیں۔ اگر حکومتی موقف کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ ریڈیو پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے چار سے پانچ ارب کی ضروت ہے بادی النظر میں ریڈیو پاکستان اور دیگر اداروں جیسے پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل جن پر حکومت اربوں روپے ماہانہ خسارہ برداشت کر رہی ہے ریڈیو پاکستان جیسے سرحدوں کے نظریاتی محافظ کے لیے یہ رقم اتنی زیادہ نہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کو ریڈیو پاکستان جیسے قدیمی ثقافتی ادارے کی افادیت و اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے احکامات دینے چاہیں۔ تا کہ آواز کی دنیا کا یہ بے تاج بادشاہ ادارہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ 

ای پیپر دی نیشن