غالب و میر!


مقصد موازنہِ انیس و دبیر نہیں ہے۔ یہ نہ تو میرا منصب ہے اور نہ اس کی استعاعت رکھتا ہوں۔ مقصد چند ہلکی پھلکی باتیں اور کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ ہے۔ ویسے بھی وطنِ عزیز میں غالب شناسوں اور ماہرین کلامِ میر کی کمی نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنے یا نیچا دکھانے کے لیے ان کے اشعار میں ایسے معانی و مفاہیم لے آتے ہیں جو غالباً مرحومین کے سان و گمان میں بھی نہ ہونگے! میرصاحب نے تو اپنے مقام کا تعین ازخود کر دیا تھا۔ اُن کے خیال میں اس وقت ہندوستان میں اڑھائی شاعر تھے۔ وہ خود، مرزا رفیع سودا اور نصف خواجہ میر درّد۔ جب کسی نے ان کی توجہ خواجہ میر سوز کی طرف دلائی تو خنددہ لبی سے بولے۔ پھر پونے تین سمجھ لیں!
غالب کا نام اس لیے نہ لیا کہ ان کی عمروں میں نمایاں تفاوت تھا۔ میر صاحب نے طویل عمر پائی۔ مولانا محمدحسین آزاد کے مطابق سو سال کی عمر میں وفات پائی۔ کچھ محققین کے مطابق عمر 92 سال تھی۔ اس سے درازی عمر کا تاثر کچھ کم نہیں ہوتا....اس وقت غالب کا ”مجموعہ خیال فررفرر تھا۔ یعنی بارہ سال کے تھے۔ ایک غلط روایت ان سے منسوب کی گئی ہے۔ یعنی کہ نواب حسام الدین حیدر نے غالب کا ابتدائی کلام لکھنﺅ میں میر تقی میر کو دکھایا۔ کلام دیکھ کر بولے۔ اس لڑکے کو اُستادِ کامل مل گیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا وگرنہ مہمل لکھنے لگے گا۔ یہ محض افسانہ ہے میر کا وصال 30 ستمبر 1810ءکو ہوا۔ اس وقت غالب کی عمر تیرہ برس کی تھی۔ ایک طفلک کا کلام آگرہ سے لکھنﺅ لے کر جانا محلِ نظر ہے۔ یہ روایت اس لیے گھڑی گئی ہے کیونکہ غالب کی زندگی میں ہی کچھ لوگ اُن کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے تھے۔ ایک مشاعرے میں تو حکیم آغا جان عیش نے اُن کی موجودگی میں کہہ دیا تھا
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے 
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے 
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے 
مگر ان کا کیا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے 
اس کا جواب تو غالب نے موثر اشعار میں دےدیا تھا
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا 
گرہیں نہیں میرے اشعار میں معنی ،نہ سہی 
حکیم آغا عیش کے نُکتہ نظر میں طیش اور حسد کی جھلک نمایاں ہے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ لکھا کیا گیا ہے۔ نہ یہ کہ شعر عام فہم ہے یا نہیں۔ یہ صورتِ حال اس لیے پیدا ہوئی کہ غالب کے ابتدائی کلام میں فارسی کی آمیزش زیادہ ہے جو احباب کے اصرار پر بتدریج کم ہوتی گئی۔ اس صورتِ حال کا اطلاق کسی حد تک میر پر بھی ہوتا ہے۔ لکھنو¿ کے چند عمائدین نے ان سے شعر سُننے کی فرمائش کی۔ انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی۔ اصرار پر فرمایا۔ قبلہ! میرے اشعار آپ سمجھ نہیں پائیں گے! وہ جزبز ہوئے کہا۔ حضرت ہم انوری اور خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں۔ آپ کا کیوں نہ سمجھیں گے۔ کیا ان کی شرحیں موجود ہیں اور ”میرے کلام کے لیے فقط محاورہ اہل اردو ہے اور اس سے آپ محروم ہیں۔“ یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا 
عشق بُرے ہی خیال پڑا ہے چین گیا آرام گیا 
دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا 
خیالِ خاطر احباب بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے میر صاحب کی شخصیت میں بہت بڑا خلا نظر آتا ہے۔ اس لیے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ تھا۔ عسرت اور تنگدستی انہوں نے اپنے اُوپر مسلط کی ہوئی تھی وگرنہ سب کچھ تھا۔ اُن کے پرستار بہت تھے۔ نواب سعادت علی خان نے ایک ہزار روپے اور خلعت بھجوائی میر صاحب نے پہلے تو لینے سے انکار کیا پھر سید انشااللہ خان کے اصرار پر لے لیے۔ یقیناً یہ ایک خطیر رقم تھی۔ نواب آصف الدولہ نے دو سو روپے وظیفہ مقرر کیا۔ اس وقت کے یہ مبلغات آجکل کے لاکھوں روپے کے برابر تھے۔ اسی طرح لکھنﺅ کے ایک نواب انہیں اپنے گھر لے گئے۔ رہنے کو وسیع و عریض مکان دیا۔ ظاہر ہے ماکولات اور مشروبات بھی اُن کے ذمہ ہونگی....دراصل میر صاحب کامزاج ایسا تھا کہ کہیں بھی ٹِک کر نہ سکونت اختیار کی اور نہ نوکری۔زور رنج تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جاتے اور ترک تعلق کر لیتے۔ ایک دن بازار میں بیٹھے تھے کہ نواب آصف الدولہ کی سواری گزری۔ دیکھتے ہی نواب نے پہل کی ”میر صاحب“ آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ کبھی تشریف نہیں لاتے۔ میر صاحب ترشی سے بولے۔ ”بازار میں باتیں کرنا آداب شرفا نہیں! 
اب اُس نیک بخت سے کون پوچھتا۔ کیا بازار میں بیٹھنا آدابِ شرفا میں شمار ہوتا ہے۔ قنوتیت ان کی Genes میں تھی۔ دراصل وہ انانیت کے اس موڑ پر پہنچ چکے تھے جہاں پر پیچھے مڑنا تو درکنار مڑ کر دیکھنا بھی محال ہوتا ہے۔ عزتِ نفس کو انہوں نے ہرچیز پر مقدم جانا۔ البتہ ایک حقیقت کا برملا اعتراف کیا۔ 
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں 
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی 
................................ (جاری)

حاسدوں نے اُن کے سیّد ہونے پر بھی شک کا اظہار کیا۔ ایک روایت کے مطابق باپ نے منع کیا۔ ”میر تخلص نہ رکھو۔ ایک دن سیّد ہونے پر شک کا اظہار کیا۔ ایک روایت کے مطابق باپ نے منع کیا۔ ”میر تخلص نہ رکھو۔ ایک دن سیّد کہلانے لگو گے!“مرزا رفع سودا نے، جو سجّو گوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، ہرزہ سرائی کی 
بیٹھ سوزِ طبع کو جب گرم کر کے میر 
کچھ شیر مال سامنے کچھ نان کچھ پنیر 
میری کے اب تو سارے مصالے میں مستعد 
بیٹا تو گند تو بنے اور آپ کوتھ میر 
قطع نظر اس بحث کے، اُن کا سیّد ہونا یا نہ ہونا، ان کی عظمت کو نہ بڑھا سکتا ہے اور نہ کسی طرح کم کر سکتا تھا۔ وہ امامِ غزل تھے سیّد العشرا، جس نے ہر کسی سے خراج وصول کیا۔ ذوق جیسے بڑے شاعر نے تو باقاعدہ ہتھیار پھینک دئیے۔ میر کا انداز نصیب نہ ہوا۔ 
ذوق یاروں نے بہت روز غزل میں مارا۔ غالب نے بھی تعریف و توصیف کا گلدستہ پیش کیا۔ انہیں اپنے سند پر بٹھایا۔ 
ریختے کے تمہیں اُستاد نیں ہو غالب 
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا۔ 
مرزا پہلے تو اپنے آپ کو اُن کے ہم مرتبہ لے آئے۔ پھر اس کو سُنی سنائی بات قرار دیا۔ بعد میں اس بات کی یہ کہہ کر تلافی کی ”آپ بے بہرہ ہے جو مقتعدِ میر نہیں۔ 
میر اور غالب کی شاعری میں صرف ایک قدر مشترک نظر آتی ہے۔ دونوں اردو غزل کو اس مقام پر لے گئے جہاں تک کسی کو رسائی نصیب نہ ہوئی۔ میر نے تو اپنی زندگی میں ہی مکہ منوا لیا۔ غالب کے فولاد میں صلابت ان کی وفات کے بعد آئی۔ ہرچند کہ کچھ لوگوں نے انہیں ہدفِ تنقید بنایا لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ آمدِ آفتاب دلیلِ آفتاب ہوتی ہے۔ مولانا 
محمد حسین آزاد کو تو خدا واسطے کا بیر تھا۔ ابتدا میں ہی لکھتے ہیں۔ غالب فارسی زبان کے بہترین شاعر تھے۔ آبِ حیات میں انہیں جائز مقام نہ دے پائے۔ بقائے دوام کے دربار میں لکھتے ہیں۔ غالب گو پیچھے تھے مگر کسی سے نیچے نہ تھے۔ مولانا کو بخوبی ادراک تھا کہ جو شخص پیچھے رہ جائے وہ کبھی اُوپر نہیں آ سکتا! بعض لوگوں کو بعض اشخاص سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت ہے جسے ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس میں تھوڑا سا قصور خود مرزا کا بھی تھا۔ وہ کافی عرصے تک اپنے فارسی کلام کو اُردو شاعری پر فوقیت دیتے رہے۔ ایک جگہ ذوق کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں 
اے کہ در بزمِ شہنشاہِ سخن رس گفتہ 
میں بنیادی طور فارسی زبان کا شاعر ہوں۔ میرا اردو کلام بے رس ہے۔ وغیرہ۔ 
میں نے بنیادی طور پر اپنے آپ کو غزل تک محدود رکھا۔ غالب کا ”کینوس“ بہت وسیع ہے۔ تصوف، فلسفہ، قانون، ندرت خیال خیال، شوخی، شرارت جسارت، بات کرنے کا منفرد انداز تھا۔ میں نے اپنے آپ کو شعروشاعری تک محدود رکھا۔ غالب نے اُردو نثر کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا، اسے ایک نئی سمت عطا فرمائی، انوکھی ہمت اور حوصلہ بخشا۔ ”میں مرنے سے نہیں ڈرتا، فقدانِ راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ اپر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے ٹپکتی ہے۔“ 
زندگی میں کئی مقام آتے ہیں۔ کیسی بھی ”سچوایشن“ ہو، غالب کا کوئی نہ کوئی شعر اس پر منطبق ہو جاتا ہے۔ ایک دلچسپ صورت اس وقت پیدا ہوئی جب برطانیہ کی دل پھینک شہزادی مارگریٹ نے ایک فوٹو گرافر سے شادی کرنے کا اعلان کیا۔ ہمارے تمام اخبارات نے یہ خبر غالب کے اس شعر کے ساتھ چھاپی۔ 
سیکھے سیکھے میں مہ رُخوں کے لیے ہم مصّوری
 تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔ 
لارڈ میکالے نے 1894ءمیں جو فوجداری قوانین وضع کئے ان میں ”قانونِ شہادت“ Evidence Act کی روسے گواہ کا Independent ہونا ضروری ہے۔ غالب ڈیڑھ سو برس پہلے ہی کہہ گئے تھے۔ 
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ماضی 
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا۔ 
اس شعر میں شوخی، شرارت اور جسارت بدرجہ اتم موجود ہیں۔ بات کرنے کا مرزا کا منفرد انداز تھا۔ قابلِ تعزیر بات بھی اس انداز میں کہہ جاتے کہ فرد جرم لگانا محال ہو جاتا۔ منصور حلاج نے جذب کے عالم میں ”قم باذنی“ کہہ دیا تھا۔ حالانکہ ابن مریم ”قسم باذنی اللہ“ کہتے تھے۔ مروجہ قانون کے تحت اسے سولی پر چڑھا دیا گیا۔ بالکل یہی بات غالب نے اس ڈھنگ سے کہی کہ گرفتاری تک کی نوبت نہ آئی۔
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن 
ہم کو تقلیدِ تنکُ ظرفیِ منصور نہیں 
غالب سختی سے اس بات کے فائل تھے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ وحدت الوجود کے قابل تھے۔ گو اس نکتہ نظر سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ مرزا نے روایات سے بغاوت کی۔ صدیوں سے راسخ خیالات سے بغاوت کی۔ برس ہا برس سے ایک دعائیہ کلمہ بولا جاتا ہے۔ ”اللہ تمہیں عمر خضر عطا فرمائے“! حضرت خواجہ خضر برگزیدہ پیغمبر تھے۔ غالب نے اس پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے عجب نکتہ نکالا 
وہ زندہ ہم ہیں کہ نہیں روشناسِ خلق اے خضر! 
نہ تم کے چور بنے عمر جاوداں کے لیے....اصل زندگی یہ ہے کہ آدمی آدمی کے کام آئے۔ خلقِ خدا کے دُکھ سُکھ بانٹے۔ حقوق العباد کی اس سے بڑھکر مثال نہیں دی جا سکتی۔ حُبِ رسول اور عقیدت آل بیت اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اسے آپ سخن گستری کہیں، شاعرانہ تعلی سمجھیں لیکن دیگران کے متعلق کچھ نہ کچھ اپنے رنگ میں ضرور کہا۔ 
”کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب۔ آﺅ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی ایک کھیل ہے اورنگِ سلیماں میرے نزدیک۔ اک بات ہے اعجاز مسیحا میرے آگے 
”نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن 
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے 
اردو شاعری میں محبوب کے مزاج، روش، طور اطوار، عادات و خصاہل کے متعلق جو محاورے وضع کئے گئے ہیں، ان سب پر تعزیرات پاک و ہند کا اطلاق ہوتا ہے۔ قاتل، ظالم ، جفا جو کینہ پرور، جس کا شناور دریائے خوں میں دوڑتا ہے۔ جس کے ناخن انسانی خون کو بطور حنا استعمال کرتے ہیں۔ وہاڑی میں ایک مشاعرے میں مقامی S.P صاحب بھی مدعو تھے۔ وہ بڑے انہماک سے مشرقی محبوب کے ظلم و ستم کے قصے سنتے رہے۔ 
جب اُنہیں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تو بولے۔ ”ایسا مجرم اشتہاری کدھر ہے؟ پولیس کو ایک عرصے سے اس کی تلاش ہے۔“ میر اور غالب نے کہیں کہیں اس روش سے ہٹ کر بھی لکھا۔ 
اس کے ایفائے عہد تک جیئے 
عمر نے ہم سے بے وفائی کی 
اس حد تک میرزا بھی اُن کا ہمنوا نظر آتا ہے۔ 
ہے وہ غرورِ حُسن سے بیگانہِ وفا 
ہرچند اُس کے پاس دلِ حق شناس ہے 
چونکہ وطنِ عزیز میں غالب و میر شناسوں کی بھرمار ہو گئی ہے اس لیے کچھ لوگوں نے ان پر بے جا تنقید کر کے اپنا قد بڑھانے کی کوشش کی۔ ہمارے ایک بزرگ شاعر نے غالب کے اشعار کے بخیے اُدھیڑنے شروع کئے ہیں۔ 
اسے میری بدقسمتی کہیے کہ انہیں بروقت دریافت نہ کر سکا۔ میں جہاں بھی رہا وہاں قومی اور عالمی مشاعرے کرائے....ملتان میں تو 1992ءمیں عالمی اُردو کانفرنس اور مشاعرہ کروایا۔ بعد میں ایک کتاب ”اردو زبان، مسائل اور امکانات“ بھی لکھی۔ ان سے صحیح معنوں میں ملاقات اس وقت ہوئی جب وزیر اطلاعات محمود چودھری کی سفارش پر میں نے انہیں ”رائٹرز ویلفیئر بورڈ“ کا ممبر بنایا۔ میں اس وقت سیکرٹری انفارمیشن حکومتِ پنجاب تھا۔ انہوں نے غالب کے جن اشعار پر تنقید کی ہے اُن میں سے ایک شعر یہ تھا۔ 
اس خوشی سے میرے ہاتھ پاﺅں پُھول گئے 
کہا جو اس نے ذرا میرے پاﺅں داب تو دے 
انہوںنے فرہنگ آصفیہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا۔ شعری سُقم یہ ہے کہ ہاتھ پاﺅں خوف کی حالت میں پُھولتے ہیں۔ فیروز اللغات میں یہ معنی درج نہیں۔ 
”چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہنا، حواس باختہ ہونا، گھبرا جانا، ہکا بکا رہ جانا،،....گویا ہاتھ پاﺅں کا پُھولنا ایک اضطراری کیفیت ہے جو خوشی یا غم میں طایر ہو سکتی ہے۔ شادیِ مرگ کیا چیز ہے؟ جس چیز کی آدمی توقع نہ کر رہا ہو، اس کے ہو جانے سے گھبراہٹ کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ جب محبوب اچانک مہربان ہو جائے تو کئی وسوسے ذہن کے زندان میں جنم لیتے ہیں۔ شیکسپیئر کی تحریر پر تنقید کرتے ہوئے جب اس کی توجہ انگلش گرائمر کی طرف مبذول کرائی گئی تو وہ بولا۔ گرائمر کو شیکسپیئر کے پیچھے چلنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ وہ اس کی تقلید کرے۔ 
ان کی دیکھا دیکھی یا اسسے شہ پا کر ایک شاعر نے ، جس کا لہجہ شعر پڑھتے ہوئے، راگوں کی زبان میں جوگ کے قریب ہوتا ہے۔ فرمایا:
میر تو میر ہم غالب بھی نہ ہوئے۔ 
ناطقہ سربگریباں ہے اِسے کیا کہیئے! 
حقیقت یہ ہے کہ دونوں عظیم شاعر تھے جنہوں نے مخصوص حالات میں اپنے اپنے رنگ میں لکھا اور خوب لکھا۔ دیگر زبانوں میں بدقسمتی سے میر کے کلام کا اتنا ترجمہ نہیں چھپا جو سہولت غالب کو میسّر آئی۔ اس لیے متفقہ طور پر He is Considered as one of the Top ten poeats of the world arguably the best.

ای پیپر دی نیشن