آئی ایم ایف سے متوقع معاہدے کے مضمر ات


پاکستان کیلئے IMF کےExtended Fund Facility پروگرام جو چار ماہ سے تعطل کا شکار تھا۔ بالآخر 31 جنوری سے لے کر 9 جنوری تک آئی ایم ایف کے مشن سے ملاقات کے بعد کافی حد تک اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ یہ پروگرام ان ممالک کیلئے ہوتا ہے جو توازن ادائیگیوں کی بیرونی ادائیگیوں یعنی External Balance of Payments. کے شدید مسائل کا شکار ہو تے ہیں پاکستان ان ممالک میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
آئی ایم ایف ایف کے اس پروگرام کا Review 9th ستمبر 2022 میں ہونا تھا مگر اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے سے یہ پروگرام تعطل کا شکار ہو گیا انہوں نے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جس میں ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جب ملک ڈیفالٹ کے آخری سرے پر پہنچ گیا اور پاکستان کو 2.5 بلین ڈالرز کا نقصان ہو گیا تو ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہا کہ ہم IMF کی تمام شرائط قبول کر لیں۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے مجھے فارغ ہی کرنا تھا تو پھر میری جگہ کسی ماہر معاشیات کو لے آتے مگر اسحاق ڈار نے تو اپنی انا میں لوگوں کی فیکٹریاں ہی بند کر ا دی ہیں۔
اگر یہ پروگرام چلتا رہتا اور ڈالرز کے ریٹ کو مصنوعی طور پر نہ روکا جا تا تو ہمیں متحدہ عرب امارات کے تجارتی بنکوں کو ادا کیے جانے والے 1.1 ارب ڈالرز کا قرض ادا نہ کرنا پڑتا بلکہ ری شیڈول ہو جاتا۔ چین کو 50 سے 70 کڑور کی ادائیگی بھی ملتوی ہو جاتی اور بیرونی ترسیلات میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کمی واقع نہ ہوتی۔ ڈالر کی قیمت اور مہنگائی میں یقیناً اضافہ ہوتا مگر اس برق رفتاری سے نہ ہو تا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کی معطلی سے جہاں ایک جانب قرض کی قسط رک گئی تو دوسری طرف دوست ممالک اور عا لمی ما لیا تی اداروں نے قرض اور امداد کا سلسلہ روک دیا جس سے ڈالرز کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر 2.9 بلین ڈالرز کے رہ گئے اگر کمرشل بینکوں کے 6.5 بلین ڈالرز کو اس میں شامل کر لیں تو مجموعی ذخائر کا حجم 9.4 بلین ڈالرز تک رہ گیا ہے۔آئی ایم ایف کے سربراہ مشن کے اعلامیے کے مطابق پاکستان کے ساتھ پالیسی اصلاحات پر عملدرآمد پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور پاکستان کو میکرو اکنا مک اینڈ فنانشل پالییسز MEFP کا غیر حتمی مسودہ فراہم کر دیا گیا ہے جس میں آئی ایم ایف نے 31 دسمبر 2023 تک اصلاحات کی نشاندہی کر دی ہے اور ان اصلاحات پر عمل درآمد کا طریقہ کار اور ٹائم فریم طے کیا جا رہا ہے۔ سٹاف لیول کے معاہدے میں تاخیر کی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف ہم سے بیرونی فنانسنگ جو جون تک 9 سے 12 ارب ڈالرز ہے اس کی فراہمی کی یقین دہانی مانگ رہا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے اس پروگرام کے تحت 1.2 بلین ڈالرز کی قسط ملنے کے امکانات ہیں تو باقی گیپ اگر دوست ممالک نے پورا کرنا ہے تو پاکستان ان سے اسکی guarantee Written آئی ایم ایف کو فراہم کر ے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف سے ابھی تک مجموعی طور پر 3ارب ڈالرز میں سے 1 رب 16 کروڑ ڈالر مل سکے ہیں اور ابھی بھی اگر یہ پروگرام بحال ہوتا ہے تو بجٹ سپورٹ میں پاکستان کو مزید 1 ارب 84 کروڑ ڈالرز آئی ایم ایف سے ملنے کی توقع ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدے کو حتمی شکل دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے پاکستان نے MEFP کے مسودے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے بجلی کی مد میں عوام سے چار ماہ میں 237 ارب اضافی وصول کیے جائینگے۔ گھریلو صارفین کے بجلی کے بلوں میں 7 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ کسانوں کو ٹیوب ویل کیلئے استعمال کرنے والی بجلی پر 3.3 روپے بجلی کی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔
کسان ہوں یا عام صارفین، اب بجلی کا ایک یونٹ 16 روپے سے زائد پڑے گا اور جب اس میں سیلز ٹیکس، فیول ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ دیگر بے شمار ٹیکس لگیں گے تو فی یونٹ کاسٹ سلیب سٹم کے تحت 40 سے 60 روپے تک پہنچ جائیگی اورتجارتی، صنعتی مقا صد کیلئے استعمال بجلی پر بھی کس قسم کا استثنا نہیں ملے گا ۔ ایکسپرٹس پر 110 ارب کی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔ حکومت 170 ارب کا ریونیو بڑھانے کےلئے امپورٹس پر ایک سے تین فیصد تک فلڈ لیوی لگا نے کی خواہشمند تھی مگر آئی ایم ایف کی مخالفت پر ایسا نہ کر سکی کیونکہ یہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور جنرل ایگریمنٹ آن ٹریڈ اینڈ ٹیرف کے تحت کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہے ۔ اگر چہ آئی ایم ایف نان فاہلرز کی جانب سے رقم نکلوانے پر 0.6 فیصد holding With ٹیکس لگا نے کی مخالفت کر رہا ہے مگر حکومت ابھی تک اس پر غور کر رہی ہے فسکل سائیڈ پر اقدامات کے بعد جب مہنگائی کی شرح 27 فیصد سے بڑھ کر 32 فیصد پر جا پہنچے گی تو لازماً شرح سود بھی مزید 2 فیصد بڑھنے کے امکانات ہیں ۔
ان حالات میں حکومت کفایت شعار کمیٹی کو حکومتی اخراجات میں کمی کی سفارشات تیار کرنے کا کہ رہی ہے مگر خود مشیروں وزیروں کی فوج ظفر موج بڑ ھا ے چلے جا رہی ہے۔ 7ماہ میں وزرائ، مشیروں اور معا ونین خصوصی پر 26 کروڑ 52 لاکھ خرچ کر دیے گئے ہیں ریٹائرڈ ججز اور اعلیٰ سول ملٹری آفیسرز 10 10 لاکھ پنشنیں اور لاکھوں کی مراعات اور تین تین پلاٹس حاصل کر رہے ہیں۔ بیوروکریٹس جن کے پاپ مفلوک الحال تھے انکے تین تین بچے امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 14 14 ارب کے پلا زوں کے خاندان مالک ہیں مگر نیب سے رہائی کے بعد دوست اینکرز کے سامنے ایمان داری کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اسی لیے آئی ایم ایف نے 17 سے 22 گریڈ تک کے افسران کے اثاثہ جات کی بھی ڈیکلریشن مانگی ہے 
حکومت کو چاہیے کہ عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل ڈالنے کی بجائے جاگیر داروں کی زرعی آمدنی پر ٹیکس نافذ کرے اور جو کاروباری طبقہ ٹیکس نہیں دے رہا‘ ان سے ٹیکس وصول کرنے کی حکمت عملی وضع کرے۔ وہ خیراتی ادارے جو فلاح و بہبود کے نام پر صحت اور تعلیم کے شعبے میں ٹرسٹ قائم کرتے ہیں اور ایف بی آر سے ٹیکس سے استثنا لیتے ہیں وہی بعد میں 80 فیصد تجارتی سرگرمیاں کر کے اور پورا خاندان ڈائریکٹروں کے عہدوں پر فائز ہو کر کروڑوں روپے تنخواہیں لیتے ہیں۔ حکومت، تارکین وطن اور عوام سے خدمت خلق کے نام پر چند ے اور اربوں کی ڈونیشن لیتی ہے۔ 
عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے مطابق پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کی صورت حال بڑی تشویش ناک ہے اور سماجی اور سیاسی عدم استحکام اور خدشات سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل میں بڑی مشکلات ہیں اگلے چند برسوں میں ہما ری ضروریات کی فنانسنگ مشکل ہو جائے گی ۔

ای پیپر دی نیشن