ضیاء محی الدین تخلیقی ذہن کے باجود اظہار کے ذرائع نہ ڈھونڈ پائے

بے پناہ تخلیقی صلاحیتوںسے مالا مال ضیا محی الدین محض ’’اداکار‘‘نہیں تھے۔ اپنی صلاحیتوں کو انہوں نے کئی اطوار سے برتا۔ ان سب کو اخباری کالم میں سمیٹنا مجھ بے ہنر کے بس میں نہیں۔پیر کی صبح اٹھتے ہی ان کے انتقال کی خبر ملی تو ذاتی حوالوں سے کئی باتیں یاد آگئیں۔ ان کے ذکرسے مگر دل گھبرا گیا۔ خوف لاحق ہوا کہ میں ان سے قربت کی شیخی بگھارتا محسوس ہوں گا۔ ان سے آخری ملاقات ویسے بھی 1976میں ہوئی تھی۔
ضیا صاحب سے ملاقات سے تقریباََ چھ برس قبل میں ان کا شدید ’’فین‘‘ ہوچکا تھا۔ ’’ضیا محی الدین شو‘‘ اس کا سبب تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن پر چلنا شروع ہوا تو بہت ہی وکھری نوعیت کی صنف محسوس ہوا۔وہاں مدعو ہوئے نامور لکھاریوں اور مختلف فنون کی قدآور شخصیات سے ان کی گفتگو کی بدولت بہت سیکھنے کو ملتا۔سوال مگر ذہن میں یہ اٹک گیا کہ مختلف فنون کی نزاکتوں سے نابلد افراد بھی ان کے شو کے منتظر کیوں رہتے ہیں۔اپنے پروگرام کے اختتام پر وہ ’’ٹھیکہ‘‘ کا حکم صادر کرتے ہوئے کوئی آزاد نظم پڑھا کرتے تھے۔’’شاکرہ کی ماں یہ بولی-اپنی لڑکی کے لئے برچا ہیے‘‘ زبان زد عام رہا۔
بہت عرصے بعد سمجھ آئی کہ ضیاء صاحب نے اپنے تئیں کوئی ’’نئی‘‘ شے متعارف نہیں کروائی تھی۔ بی بی سی اور مختلف امریکی ٹی وی چینلوں پر ایسے شو 1960کی دہائی سے متعارف ہوچکے تھے۔ انہوں نے مذکورہ صنف کو ’’پاکستانی‘‘ روپ فراہم کیا۔ان کا شو مگر امریکہ اور یورپ میں متعارف ہوئے انداز کی بے اثر نقالی نہیں تھا۔ وہاں مشہور ہوئے شوز کا میزبان عاجزانہ تجسس سے مختلف وجوہات کی بنا پرمشہور ہوئے مہمانوں کو اپنے فن اور شخصیت کے زیادہ پہلو عوام کے روبرو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ضیامحی الدین شو میں لیکن ان کی اپنی شخصیت پورے شو پر چھائی رہتی۔
ضیا صاحب بنیادی طورپر سٹیج کے اداکار تھے۔ برطانیہ کی مشہور زمانہ رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس(راڈا) کے ہونہار طالب علم رہے تھے۔ اداکاروں کو پہلا سبق وہاں یہ سکھایا جاتا ہے کہ سٹیج پر داخل ہوتے ہی لوگوں کی توجہ اپنی جانب کیسے مبذول کرانا ہے۔ تکینکی زبان میں اسے ’’انٹری‘‘ کہا جاتا ہے۔ضیا صاحب منفردانداز میں شو کے آغاز میں سٹیج پر نمودارہوتے۔ان کا لباس بہت شوخ اور طرح دار بانکوں والا ہوتا۔ کھڑے ہوکر افتتاحی کلمات ادا کرنے کے بعد مہمان کی ’’انٹری‘‘ کے لئے فضا بناتے اور اسے کرسی پر بٹھاتے ۔ دریں اثنا ڈرامائی فضا کا سماں بندھ گیا ہوتا۔ناظرین مبہوت ہوچکے ہوتے۔’’انٹری‘‘ کا یہ انداز امریکہ اور یورپ کے مشہور ترین شوبازوں کو بھی نصیب نہیں ہوا۔
ضیا صاحب پاکستان آنے کو اس لئے مجبور ہوئے کیونکہ برطانیہ کی بہت ہی جید اکیڈمی سے تربیت یافتہ ہونے کے باوجود انگلینڈ کا تھیٹر کسی ’’دیسی‘‘ کو شیکسپیئر کے لکھے ڈراموں میں ’’لیڈ‘‘ کرداردینے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔’’اوتھیلو‘‘جیسے ڈراموں میں بھی گورے اداکار منہ پر سیاہی مل کر نمودار ہوتے۔برطانوی تماشائیوں کی جبلت ہوئی نسل پرستی کا توڑ ان کے زمانے میں دریافت نہیں ہوا تھا۔ اپنی تربیت یافتہ صلاحیتوں کو لہٰذا انہوں نے پاکستان میں ٹی وی شو کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کی اور اس کاوش میں انتہائی کامیاب رہے۔ ہمارے ہاں ایسے شو مگر زیادہ عرصہ چلائے نہیں جاسکتے۔ اپنے فن میں یکتا تصور ہوتے فن کاروں،ادیبوں اور شاعروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ انہیں روزانہ مدعو کرتے ہوئے کوئی ’’نئی بات‘‘ نکالنا بہت مشکل ہے۔ شو کوعوامی اور مستقل دل پذیر رکھنے کا ہنر طارق عزیز مرحوم ہی کو میسر ہوا۔ ’’نیلام گھر‘‘ وہ تقریباََ مرتے دم تک چلاتے رہے۔
تھیٹر کے جس ہنر کے ضیا صاحب ماہر تھے ہمارے ہاں مقبول نہیں ہوپایا۔ یہاں کی فلم انڈسٹری بھی ان کی صلاحیتیں آزمانے کے قابل نہیں تھی۔ضیاء صاحب بے پناہ تخلیقی ذہن کے باوجود اظہار کے ذرائع نہیں ڈھونڈ پارہے تھے۔ گومگو میں مبتلا تھے کہ بھٹو صاحب کی حکومت کے دوران انہیں پی آئی اے کے لئے ایک ’’ثقافتی طائفہ‘‘ تیار کرنے کا موقعہ ملا جو دیگر ممالک جاکر ہماری تہذیبی شناخت اجاگر کرتے ہوئے غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان آنے کی ترغیب دے۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ وہ اس ہدف کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہے۔
فلمی زبان میں ’’فاسٹ کٹ‘‘ کرتے ہوئے 1976 میںپہنچ جاتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اس برس مارچ 1977میں نئے انتخاب کے انعقاد کی تاریخ دے دی تھی۔ انتخابی مہم چلانے سے قبل ان کی شدید خواہش تھی کہ چین اور شمالی کوریا کی طرح پاکستان میں بھی ایسا ’’اوپرا‘‘تیار ہو جو بھٹو صاحب کی قیادت میں آئے ’’انقلاب‘‘کے کلیدی اثرات عوام تک پرکشش انداز میں پہنچائے۔منو بھائی نے ایک ڈرامہ ’’جلوس‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔بھٹو صاحب تک خبر پہنچی کہ اسے بنیاد بناکر مطلوبہ ’’اوپرا‘‘تیار کیا جاسکتا ہے۔صفدر میر صاحب سے بھی اس ضمن میں مشاورت ہوئی۔کم لوگ جانتے ہیں کہ نوجوانی میں ضیا صاحب کراچی میں وہاں کی ا شرافیہ کیلئے انگریزی ڈرامے پیش کیا کرتے تھے۔ان کے ساتھی اداکاروں میں بیگم نصرت بھٹو کی بہن بیہجت حریری بھی شوقیہ فن کار کی حیثیت میں شامل ہوا کرتی تھیں۔بیگم صاحبہ سے دیرینہ شناسائی نے انہیں بھٹو صاحب سے طویل ملاقات کا موقعہ فراہم کیا اور اس کے نتیجے میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس جسے اب ادارئہ ثقافت پاکستان کہا جاتا ہے کو یہ حکم صادر ہوا کہ وہ ضیا صاحب کو مجوزہ ’’اوپرا‘‘ تیار کرنے میں ہر طرح کی معاونت فراہم کرے۔
’’اوپرا‘‘ کے لئے خاص نوعیت کی لائیٹنگ درکار ہوتی ہے۔اس کے علاوہ سٹیج پر مناظر بھی ’’خودکار‘‘ دکھتے انداز میں بدلتے رہتے ہیں۔ہمارے ہاں ویسا ماحول تیار کرنے کا ہنر اور آلات میسر نہیں تھے۔بھٹو صاحب کی خواہش پر شمالی کوریا سے مطلوبہ سامان کی بھاری بھر کم کھیپ گویا چٹکی بجاتے ہی پاکستان آگئی۔ تکنیکی ہنرمندوں کی خاطر خواہ تعداد بھی ہمارے لوگوں کو تربیت دینے یہاں پہنچ گئی۔ میں ان دنوں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کا ملازم تھا۔نوکری میری اس کے تخلیقی رسالے کے لئے مضامین جمع کرنا تھا۔ڈرامے اور تھیٹر کی واجبی شدھ بدھ رکھنے کی وجہ سے مگر حکم صادر ہوا کہ میں ضیا صاحب کا ذاتی معاون ہوں گا۔ خوشی توبہت ہوئی۔ چند ہی دن بعد مگر دل نے جان لیا کہ میں ضیا صاحب جیسی قدآور اور مشہور زمانہ شخصیت کی معاونت کے بھی قابل نہیں ہوں۔اپنی زبان پر کنٹرول میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ضیا صاحب حکم دینے کے عادی تھے۔ ان سے ’’صحبت‘‘ ممکن نہیں تھی۔ اپنی اوقات سے باہر نکل کر اکثر انہیں کھرے لفظوں میں بتادیتا کہ جو ’’تماشہ‘‘ وہ لگانا چاہ رہے ہیں اسے پاکستان میں تخلیق کرنا ممکن نہیں۔ضیا صاحب کا بڑا پن ہے کہ میری رائے کو ان سنی کرتے رہے۔شکایت لگادیتے تو نوکری سے محروم ہوجاتا۔ بالآخر میں درست ثابت ہوا۔کیوں اور کیسے؟ بیان کرنے لگوں تو بات طویل ہوجائے گی۔
بہرحال ’’تماشہ‘‘ تو لگ نہ پایا مگر جولائی 1977میں جنرل ضیا اقتدار پر قابض ہوگئے۔ ضیا صاحب کے حاسدوں نے افواہیں پھیلائیں کہ ’’ثقافت‘‘ کے بہانے اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان میں ’’فحاشی اور مغرب زدہ‘‘ خیالا ت پھیلانے کی کوشش ہورہی ہے۔الزام یہ بھی لگاکہ بھٹو صاحب جو ’’اوپرا‘‘ تیار کرنا چاہ رہے تھے اس کا مقصد عوام کو یہ تاثر دینا تھا کہ ان کا ’’انقلاب‘‘ وطن عزیز میں فوج کی بالادستی کے خلاف شروع ہوا تھا۔ مذکورہ افواہوں کی بدولت ’’انکوائری‘‘ شروع ہوگئی۔ ضیا صاحب گھبرا کر برطانیہ لوٹ گئے۔
کچھ عرصہ گمنامی کے بعد مگر ایک اور روپ میں نمودار ہوئے اور اپنے مداحین کو ایک بار پھر مسحور بناڈالا۔مختلف ادبی تقریبات میں انہوں نے ’’پڑھنت‘‘ کو متعارف کروایا۔ ڈرامائی انداز میں اردو کی جدید اور کلاسیکی نثر اور شاعری پڑھنے کا وہ انداز اپنایا کہ ’’وہ کہے اور سنا کرے کوئی‘‘ کا ماحول بن جاتا۔ان کی بدولت کتاب سے کٹی نوجوان نسل اردو ادب کی تاریخ سے نآشنائی کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔میری دانست میں ضیا صاحب کا اصل ورثہ ’’پڑھنت‘‘ ہی شمار ہوگا جو آنے والی کئی نسلوں تک احسان کی صورت زندہ رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن