اسلامی بحری بیڑے کے موجد سید نا حضرت امیر معاویہ

برائے خصوصی اشاعت22رجب المرجب بروز منگل بسلسلہ یوم وفات

کاتب وحی جلیل القدر صحابیؓ
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
 مولانا محمد عمران بھٹی

سیدنا حضرت امیر معاویہؓ  وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے موجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور آپ کے لیے حضورؐ کی زبان مبارک سے کئی مرتبہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں۔کاتب وحی جلیل القدرصحابی سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں حضور ؐنے فرمایا کہ! اے اللہ معاویہؓ   کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا۔ (جامع ترمذی687/5)  آپ کی بہن حضرت سیدہ امّ حبیبہ ؓ کو حضور اکرم ؐکی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، آپ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی۔
آپ کے والد سیدنا ابو سفیانؓ سرداران قریش میں سے ہیں اور فتح مکہ کے موقع پر حضور  ؐ نے ان کے گھر کو بھی ’’دارالامن‘‘ قرار دیا۔ سیدنا حضرت امیر معاویہ سروقد، لحیم و شحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی، آنکھیں موٹی، گھنی داڑھی، وضع قطع، چال، ڈھال میں بظاہر شان و شوکت تواضع، فروتنی، حلم و بردباری اور چہرہ سے ذہانت و فطانت مترشح تھی۔مشہور روایت کے مطابق آپ فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد سیدنا حضرت ابوسفیانؓ کے ہمراہ اسلام لائے۔سیدنا حضرت امیر معاویہؓ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورؐ نے انہیں مبارکباد دی اور ’’مرحبا‘‘ فرمایا (البدایہ والنہایہ 117/8)
 سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے ۔فتح مکہ کے بعد آپ حضور  ؐکے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضور ؐکی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔ قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ’’کتابت وحی‘‘ ہے۔ حضور  ؐ نے جلیل القدر صحابہ کرامؓ پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ’’کاتبین وحی‘‘ تھے ان میں سیدنا حضرت امیر معاویہؓ   کا چھٹا نمبر تھا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضورؐ اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا۔ (ازالۃ الخلفاء از شاہ ولی اللہ)
سیدنا حضرت امیر معاویہؓ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور   کے خطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔
سیدنا حضرت امیر معاویہؓ   حضورؐ کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفر و حضر میں بھی خدمت کا موقع تلاش کرتے… چنانچہ ایک بار حضورؐ کہیں تشریف لے چلے تو سیدنا حضرت امیر معاویہؓ خدمت کے لیے پیچھے پیچھے ساتھ ہو گئے۔ راستہ میں حضورؐ کو وضو کی حاجت ہوئی۔ پیچھے مڑے تو دیکھا سیدنا امیر معاویہؓ پانی کا برتن لیے کھڑے ہیں آپ  ؐبڑے متاثر ہوئے چنانچہ وضو کے لیے بیٹھے تو فرمانے لگے۔ ’’معاویہؓ   تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں سے درگزر کرنا۔‘‘ حضرت معاویہؓ   فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضور  ؐ کی پیشین گوئی صادق آئے گی اور میں کبھی نہ کبھی ضرور خلیفہ ہو کر رہوں گا۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہؓ  کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے،خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہؓ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ، روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کر دیے… سیدنا حضرت امیر معاویہؓ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے ’’فتح قبرص‘‘ کی خواہش آپ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ و افریقہ پر حملہ اور فتح کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔
’’بحر روم‘‘ میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لیے بہت قریبی خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام و مصر کی حفاظت ممکن نہ تھی ۔ جس کیلئے  حضرت عثمان غنیؓ کی اجازت سے حضرت امیر معاویہؓ نے بحری بیڑے کی تیاری شروع کی ۔اور پھر 28ھ میں آپ  اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ ’’بحر روم‘‘ میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کر لی ،بعد میں بدعہدی کرنے پر سیدنا حضرت امیر معاویہؓ پوری بحری طاقت تقریباً پانچ سو بحری جہازوں سمیت قبرص (سائپرس) کی طرف روانہ ہوئے اور اسے فتح کر لیا، آپ  کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ جن میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ ، حضرت ابوذر غفاریؓ ، حضرت ابودردائؓ ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور حضرت شداد بن اوسؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ   شریک ہوئے۔مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
 آپ کے بارے میںپہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں جبکہ دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کر کے اس کو فتح کیا۔ اس جنگ میں حصہ لینے  کیلئے صحابہ کرامؓ و تابعین گوشہ گوشہ سے دمشق پہنچے ان میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ  ؓ اور میزبانِ رسول ؓ سیدنا حضرت ابوایوب انصاریؓ مدینہ منورہ سے تشریف لا کر اس لشکر میں شریک ہوئے جن کے بارے میں حضورؐ نے جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی تھی۔سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دورِ حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گارڈ دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہؓ نے خلفائے راشدین کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس میں مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈالی۔ آپ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔ (2) سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے ۔ (3) آب پاشی اور آب نوشی کے لیے دورِ اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔ (4) ڈاک خانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔ (5) سب سے پہلے احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ (6) آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے۔ آپ نے پرانے غلاف کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔ (7) خط دیوانی ایجاد کیا اور رقوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔ (8) انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔ (9) آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔ (10) آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک و نفع کے جاری کر کے تجارت و صنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کیے۔ (11) سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں (12) سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا (تاریخ اسلام از اکبر شاہ خان نجیب آبادی)
  سیدنا حضرت امیر معاویہؓ نے 78 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت ضحاک بن قیسؓ  نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کیے گئے۔ 

ای پیپر دی نیشن