کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) ایپی لیپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر، معروف نیورولوجسٹ اور مرگی کے ماہر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ مرگی کے مرض میں مبتلا افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے۔مناسب قانون سازی جو مرگی کے شکار لوگوں کے انسانی حقوق کی ضمانت دے گی۔اس سال کا تھیم "بدنامی کا خاتمہ" ہے۔ایپی لیپسی فاؤنڈیشن آف پاکستان IBE کے ساتھ متفق ہے کہ مناسب قانون سازی کی کی جائے تاکہ مرگی کے شکار لوگوں کو انسانی حقوق کی ضمانت ملے اورانہیں اپنی پوری صلاحیت کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع میسر آ سکے۔ انہوں نے کہا کہ اینٹی سیزر(مرگی کے دوروں کو روکنے والی) ادویات کو زندگی بچانے والا درجہ دیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ان لوگوں کے دماغ مرجھا جائیں گے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے آغا خان یونیورسٹی کے فیس بک لائیو سیشن میں بھی شرکت کی، جہاں انہوں نے مرگی کے بارے میں تفصیل سے حقائق بتاتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں 65 ملین افراد مرگی کا شکار ہیں، پاکستان میں 2.2 ملین لوگ مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں، اس کرہ ارض پر 1,000 افراد میں سے 4 سے 10 افراد مرگی کے دوروں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک تہائی افراد جومرگی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں انہیں علاج کی مناست سہولیات میسر نہیں ہے۔ مرگی کے مرض میں مبتلا 10 میں سے 6 افراد کی بیماری کی وجہ معلوم نہیں ہے۔ ہر سال، مرگی میں مبتلا 1,000 میں سے 1 سے زیادہ افراد اچانک غیر متوقع موت سے مر جاتے ہیں، جسے SUDEP کہا جاتا ہے۔ صنعتی ترقی یافتہ دنیا میں مرگی کے شکار 10 میں سے 4 افراد کو مناسب علاج نہیں ملتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں مرگی میں مبتلا 10 میں سے 8 افراد کو مناسب علاج نہیں ملتا ہے اور یہ کہ مرگی کے50 سے زیادہ مختلف قسم کے دورے پڑتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایپی لیپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی سرگرمیوں کا مقصد بیداری پیدا کرنا اور عام لوگوں کو مرگی کے بارے میں حقیقی حقائق سے آگاہ کرنااور لوگوں میں آسیب یا جنات کے خوف کو دور کرنا اور لوگوں میں اس سوچ کو ختم کرنا ہے کہ مرگی کا مرض کوئی بدنما داغ ہے۔