ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
الیکشن کے دن تک پیشنگوئیاں جاری تھیں کہ اِ س بار حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ تیار کیا جا رہا ہے لیکن الیکشن کے بعد پتہ چلا کہ حصے میں روٹی کے ساتھ مکِس اچار کھانے کو ملے گا۔ کاش پاکستان جتنا خو بصورت اور ذرخیز ملک تھا۔ اس کو بہتر بنانے والے حکمران ہمارے حصے میں آتے لیکن ہمارے بڑے بھی اس دن کی حسرت لیے پاکستان سے آسمان پر چلے گئے اور اب حکمرانوں کی فطرتیں دیکھنے کے بعد لگ رہا ہے کہ حسرت پھر کسک ہی نہ بن جائے اور ہماری نسل بھی ایک اچھی زندگی گزارے بغیر دنیا سے چلی جائے۔ البتہ ہماری اگلی نسل جان چکی ہے کہ پاکستان 76سال میں نہیں بدلا اور بہتر ہونے کے بجائے بد تر ہوا ہے۔ پاکستان میں غربت، بیرروزگاری اور میرٹ کا قتلِ عام مسلسل جاری و ساری ہے۔ ایمانداری اور محنتی آدمی کے لیے پاکستان جہنم ہے جبکہ بے ایمان، دھوکے باز، مکار و عیار آدمی کے لیے پاکستان کسی جنت سے کم نہیں۔ اسلئیے ہماری نسل پاکستان چھوڑنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ پاکستان جب بنا تھا تو ہمارے دادا دادی کا زمانہ تھا جو انڈیا میں پیدا ہوئے تھے اور اُنکی شادیاں بچے ہو گئے تھے۔ اس لیے پاکستان میں آنیوالی یہ نسل تھی۔ دوسری نسل ہمارے وا لدین کی تھی۔ تیسری نسل میں، میں اور میرے جیسے ہم عمر افراد آتے ہیں۔ چھوتی نسل ہمارے بچے ہیں جو اب بڑے ہو چکے ہیں۔ چھوتی نسل ہم سے زیادہ تیز، زمانہ ساز اور سمجھدار ہے۔ یہ جنریشن ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ اب جب انکی شادیاں اور بچے ہو رہے ہیںتو پاکستان اب پانچویں جنریشن سے گزر رہا ہے۔ یہ بچے پالنے کے وہ پُوت ہیں جنکی ذہانتیں انکے پہلے تین سالوں میں ظا ہر ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا نے ایک سال کے بچے کو بھی اسقدر فعال، متحرک اور تیز بنا دیا ہے کہ عقل حیران ہے۔ سوشل میڈیا اور آئی ٹی کی وجہ سے جاہل گنوار اورپینڈو بھی ساری دنیا سے اٹیج ہو گئے ہیں اور لمحہ لمحہ کی صورتحال سے واقف ہیں۔ کیمرے کی آنکھ نے حقا ئق کو وا شگاف کر دیا ہے۔ اگر چہ سچائیاں سامنے آ رہی ہیں لیکن فراڈئیے یعنی جعلساز اور سا زشی عنا صر آئی ٹی کے ذریعے حقا ئق کو اس طرح ٹو ئسٹ کر رہے ہیں کہ جھوٹ بھی سچ دکھا ئی دیتا ہے۔ مطلب انسانی دماغ دنیا کو بدلنے والا ایسا کمپیو ٹر ہے جس سے کا ئنات کی کو ئی چیز نہیں جیت سکتی۔ اس سار ی تمہید کا مقصد یہ بتا نا ہے کہ ہمارے تازہ ترین الیکشن چند خا ص دما غوں کا نتیجہ ہیں۔ جن میں یہ کو شش کی گئی تھی کہ موجودہ الیکشن کے نتیجے میں عوام کو کھانے کے لیے سوہن حلوہ ملے گا۔ آئی ایم ایف کو ’’ سوکن‘‘ بنا کر تو ہاتھ میں صرف ’’چٹنی‘‘ ہی آئے گی کیونکہ آئی ایم ایف کو عوام کی ’’سوتیلی ماں‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ ’’سوتیلی ماں‘‘ ہمیشہ ایک ڈائن ثا بت ہو تی ہے۔ بہرحال حالات و واقعات اور چند دما غوں میں جو یہ خوا ہش جاگ رہی تھی کہ مرکز اور کم از کم دو صوبوں میں من مانی حکومت قا ہم کر کے راج کیا جائے گا تو اس سے مطلق العنانیت اور ملوکیت کے بیج سر اٹھا رہے تھے لہذا اس سرکشی کی سرکوبی کے لیے مخلوط حکومت کا فا رمولہ اپنا یا گیا۔
عوام کو سوہن حلوے کے بجائے ’’مکِس اچار‘‘ پر لایا گیا۔ وزیر اعظم بننے کی طلب سات افراد میں شدت سے تھی جن میں تین افراد مسلم لیگ، ایک پیپلز پارٹی، دو تحریک انصاف اور ایک امیر جما عت اسلامی ہیں۔ سراج الحق اپنی شکست کے بعد مستعفی ہو گئے ہیں جبکہ ن لیگ میں سے مریم نواز کو بھی منہا کر دیا گیا ہے کہ ابھی وہ وزیر اعظم بننے کی اہل نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے سابق چئیرمین نا اہل ہو چکے ہیں لیکن خیبر پختونخواہ میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف طا قت پکڑنے کی کو شش کر رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی 266 سیٹوں میں سے آزاد کی تعداد 97ہے جبکہ ابھی مکمل رزلٹ نہیں آیا۔ آزاد امیدواروں کا زیادہ تر تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ اسطرح آزاد امیدوار بھی مل کر بطور ایک پارٹی اپنا امیدوار سامنے لاسکتے ہیں۔ اگر وہ کسی پارٹی سے الحاق کرتے ہیں تو بیرسٹر گو ہر خان بطوروزیر اعظم سامنے آ سکتے ہیں۔ اس وقت وزارت اعظمیٰ کے لیے جو چار اہم نام بچے ہیں۔ اُن میں سرفہرست نواز شریف ہیں۔ وہ تجربہ کار، بہترین اور مظبوط امیدوار ہیں۔ علاوہ ازیں چاروں میں سے اچھی آپشن ہیں۔ شہباز شریف کو عوام اور دیگر پارٹیاں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اُنکا وزارتِ اعظمیٰ کا سابقہ تجربہ انتہا ئی ناکام اور تکلیف دہ تھا۔ عوام کو سولہ مہینوں میں شدید عذاب با لخصوص مہنگا ئی اور ٹیکسوں سے گزرنا پڑا۔ عوام کی حالت زندہ بدست مُردہ والی ہو گئی اور شہباز شریف نے عوام پر آئی ایم ایف کو مسلط کر کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دیں نیز عوامی بہبود کا کو ئی ایک کام بھی نہیں کیا۔ اس لیے عوامی سطح پر شہباز شریف کے لیے مقبولیت کا گراف گر گیا ہے۔ البتہ نواز شریف کے لیے پسندیدگی موجود ہے۔ جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کا تعلق ہے۔ وہ نوجوان ہیںاور فی الحال ہر قسم کے سکینڈل اور کرپشن سے پاک ہیں لیکن ابھی ناتجربہ کار ی آڑے آ جاتی ہے۔ بلاول بھٹو کو اگلے الیکشن میں بطور وزیر اعظم آنا چا ہیے تب تک اُن میں میچورٹی کی سطح بلند ہو جائے گی اور وہ ایک کامیاب وزیر اعظم ثا بت ہو نگے۔ شراکت اقتدار کے نئے فارمولے کے مطا بق مخلوط حکومت بنائی جائے گی۔ جس میںوزارتِ اعظمیٰ کے منصب کو دو حصوں میں منقسم کیا جائے گا یعنی پہلے دُور میں وزارتِ اعظمیٰ نواز شریف کو ملے گی جبکہ 2027ء سے وزارتِ اعظمیٰ بلاول بھٹو کو دیدی جائے گی یعنی مکس اچار میں ’’امبیاں‘‘ ن لیگ ہے، تیل پیپلز پارٹی ہے۔ ہری مرچیں ایم کیو ایم ہے۔ جے یو آئی ف ’گاجر‘ ہے جبکہ ’لسوڑے‘ استحکام پارٹی بنے گی۔ مکس اچار میں ’’ سرکے‘‘ کا کام پی ٹی آئی کے حصے میں آئیگا۔ اسی طرح اچار مصا لحہ چھوٹی پارٹیاں بنیں گی۔ صدرِ مملکت کے لیے تین نام فیورٹ ہیں۔ اگر وزارتِ اعظمیٰ نواز شریف کو ملی تو آصف زرداری صدرِ مملکت بن سکتے ہیں۔ شہباز شریف اور فضل الرحمان بھی مظبوط امیدوار ہیں۔ وزارتِ اعلیٰ میں ایسی صورت میں دونوں پارٹیاں دو صوبوں میں اپنا وزیر اعلیٰ لائیں گی جن میں پنجاب اور گلکت بلتستان کا وزیر اعلیٰ ن لیگ سے ہو گا۔ سندھ اور بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی سے جبکہ کے پی کے کا وزیر اعلیٰ تحریک انصاف سے ہو گا ۔ تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے نام بھی حتمی ہیں یعنی پنجاب میں مریم نواز، سندھ میں مراد علی شاہ اور کے پی کے میں علی امین گنڈاپور ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ، چئیر مین سینٹ، وزیر خارجہ، داخلہ، خزانہ، قا نون اور وزارتِ اطلاعات میں سے سپیکر قومی اسمبلی، وزیر دا خلہ، قا نون، اطلاعات، خزانہ ن لیگ کے اور باقی کے عہدے پیپلز پارٹی کے ہونگے۔ چند وفاقی وزراتیں ایم کیو ایم، استحکام پارٹی اور دیگر کو دی جائیں گی۔ یو ں یہ مکس اچار تیا ر ہو کر عوام تک پہنچے گا۔ ان سبھی پارٹیوں نے سالوں لوٹ مار کی ہے۔ اب عوام کے لیے بھی کچھ کر لیں کیونکہ دولت کے انباروںسے نام نہیں چلتا۔ نام کردار اور کارکردگی سے چلتا ہے۔
سوہن حلوہ کے بجائے مکِس اچار
Feb 14, 2024