واہ رے اونٹ تیری کروٹ 

نوید مغل
 کہتے ہیں کہ ایک کنجڑے اور کمہار نے مل کر اونٹ کرایہ پر لیا۔کنجڑے نے ایک طرف ترکاری دوسرے طرف کمہار نے اپنے برتن لادے۔راستے میں اونٹ گردن اٹھا کر کنجڑے کی ترکاری کھاتا رہا۔کمہار یہ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا کہ چلو میں تو نقصان سے بچا۔ جب منزل آئی تو اونٹ والے نے اونٹ کو بٹھایا تو تو اس طرف کروٹ لے کر بیٹھا جدھر کمہار نے برتن لدے ہوئے تھے۔وہ آن کی کی آن میں ٹوٹ کر ڈھیر ہوگئے۔دونوں نے اپنے اپنے نقصان کا اندازہ لگایا تو کمہار کا نقصان زیادہ نکلا۔اس وقت کنجڑا بولا ، بھیا گھبراتے کیوں ہو آئندہ ہو سکتا ہے اونٹ دوسری طرف بیٹھ جائو۔سو ہمارے دو سیاسی پارٹیوں کا حال بھی کنجڑے اور اس کمہار جیسا ہے جنہوں نے اونٹ کی کروٹ کا ’’تجربہ ‘‘ فرما فرما کر ملک اور عوام دونوں کا کباڑا کردیا ہے اور اب حالیہ الیکشن کے بعد پھر پر تول رہے ہیں۔ 
یہ بات شریف برادران کو 25 سال تک سمجھ نہ آسکی اور ان کے والد گرامی مرحوم نے بھی ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کی ہمیشہ حمایت کی، انہیں کرنا بھی چاہیے تھا کیونکہ بھٹو نے ان کی اتفاق فونڈری سرکاری تحویل میں لیکر میاں شریف مرحوم کے بچوں کا روزگار چھین لیا اور پھر مرحوم آخری دم تک بھٹو مخالف رہے۔
میاں نوازشریف کو ان کے والد جنرل جیلانی کی معرفت سیاست میں لائے۔، ان کے دل میں بھی بھٹو خاندان کے خلاف انتقام کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے بھی مرحوم جنرل حمید گل کی شاگردی اختیار کی اور ان کا دیا گیا سبق میاں نوازشریف نے دو دہائیوں تک یاد رکھا۔ بقول شیخ رشید فوج کی نرسری میں شریف برادران پروان چڑھے ہیں۔ وقت گزرتا رہا بینظیر کے مقابلے میں جنرل ضیاء نے میاں نوازشریف کو اپنی زندگی دے کر کھڑا کیا اور میاں نوازشریف نے بھی 17اگست 1987ء کو جنرل ضیاء کے جنازے پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں آپ کا مشن جاری رکھوں گا اور مشن ایسا جاری رکھا کہ بینظیر کی ذاتیات پر تابڑ توڑ حملے کئے، جعلی پوسٹرز تک چھپوائے، جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر آصف علی زرداری کیلئے مسٹر ٹن پرسنٹ کا مشہور زمانہ خطاب دیا جو آج تک عوام کو یاد ہے۔
بطور صحافت کے طالبعلم مجھے تعجب ہوتا ہے کہ شریف برادران نے بینظیر اور آصف علی زرداری کی نجی زندگی سے لیکر ان کے خلاف مقدمات اور پھر اْنہیں سزائیں دلوانے کے لئے کوشاں رہے۔ یعنی شریف برادران نے بہو، بیٹی اور خواتین کی کسی بھی حرمت کا خیال نہیں رکھا تھا۔ بلاول بھٹو کی آمد پر بھی شریف برادران اور ان کی مریم نواز اور حمزہ شہباز اپنے والدین سے دو دو قدم آگے نکل گئے تھے اور ذاتیات، گریبانوں، پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے تک کی نوبت آگئی اور نہ گھسیٹنے پر ’’میرا نام بدل دینا‘‘ کی شرطیں لگتی رہیں مگر دانشوروں کا قول ہے کہ وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے اس کے بدلتے دیر نہیں لگتی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ پہلے میاں نوازشریف لندن میں بینظیر بھٹو کے پاس چل کر گئے اور میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور پھر 5فروری کو شہبازشریف نے سڑکوں پر گھسیٹنے والے کی گاڑی کا دروازہ کھول کر استقبال کیا۔
چند روز قبل بھی بڑا عجیب منظر تھا جب شہبازشریف، مریم نواز ودیگر مسلم لیگی جْھکی جْھکی نگاہوں سے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے سامنے ایک بار پھر بچھے جارہے تھے اور  میٹنگ میں فرما رہے تھے کہ ’’بس ماضی کی بات کا ذکر نہ کریں‘‘ مستقبل کی بات کریں ماضی چھوڑیں۔ بڑے عجیب اور دلفریب منظر کے ساتھ یہ ایک عبرتناک منظر بھی تھا کہ قادر مطلق نے اْسی چور کے استقبال پر شریف برادران کو کس طرح مجبور کیا جس کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے تکبرانہ دعوے کرتے تھے۔ ٹی وی پر جب یہ منظر میں دیکھ رہا تھا تو مجھے خواجہ آصف بڑا یاد آرہے تھے جب انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر خارجہ کو کہا تھا کہ انسان میں کوئی شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے، غیرت ہوتی ہے۔
چلو ان سب کو چھوڑ کر مقصد کی بات کرتے ہیں ، میرا صرف ایک سوال ہے کہ حکومت بنانا مقتدر قوتوں کے بغیر ممکن ہے؟ کیا آصف زرداری نے کچی گولیاں کھیلی ہوئی ہیں؟ یہ صرف چائے کی پیالی میں اْبال ہے سب لوگ موجودہ تنخواہ پر ہی کام کرینگے البتہ رونق میلہ لگا رہے گا ، عوام پہلے کی طرح پھر پستے رہیں گے ، مہنگائی کم کرنے کے نام پر  مہنگائی کا گراف مزید بڑھایا جاتا رہے گا ، بیچاری عوام کو لنگوٹی کی فکر پڑی رہے گی ، اشرافیہ اور ’’ بڑے لوگ ‘‘ حسب روایت غریب اور مزدور سمیت ٹیکس خواہ کے ٹیکس پر اقتدار ’’انجوائے‘‘ کرنے میں مگن ہو جائیں گے ، صاحبِ اقتدار کے مزاج اور حالات بدل جائیں گے۔۔اگر پھر بھی نہیں بدلیں گے تو صرف اپنے حالات بدلنے کے منتظر عام اور غرب کے حالات نہیں بدل سکیں گے۔۔اور آخر میں تو صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میاں برادران کس منہ سے آپ نے زرداری کا استقبال کیا ؟ اور زرداری حضور ، بلاول صاحب کے ساتھ پیٹ پھاڑنے والوں کا پرتپاک استقبال آپ نے کس منہ سے کیا۔۔؟؟

ای پیپر دی نیشن