رابیل کی نظمیں 



 ” حال ہی میں کنول بہزاد نے انگریزی کی نظموں کی کتاب”The trees know me“ ”The trees know me“ مجھے بھجوائی۔ یہ اس کی بیٹی کی شاعری کی کتاب ہے۔ جب وہ BS Psychology 3rd year کی طالبہ تھی تب اس نے poetry competition میں فرسٹprizeحاصل کیاتھا۔
اپنی شاعری میں رابیل بلوچ نے اپنے دل کی آواز سنی ہے اور صفحہ قرطاس پر لکھی ہے ایمانداری کا جذبہ کوٹ کوٹ بھرا ہےاور قاری کو موقعہ دیتی ہے کہ وہ میرے دل کی آواز نظم میں سنے۔
ایک لحاظ سے اس کے دل کی آواز سننے کےلئے اس کی نظموں کی کتاب”The trees know me“سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ اس کی نظم ”The trees know me“پڑھ کر پرانا واقعہ یاد آگیا تھا۔ بہت سال پہلے میں کینڈا کے خوبصورت شہر ہیلی فیکس میں جب گئی تو میری ساتھی جسٹس تنویر کی اہلیہ پروین بھی میرے ساتھ تھی۔ ہوٹل کی کھڑکی کے نیچے ایک خوبصورت باغ تھا وہاں درخت کے نیچے ایک لڑکی بالکل رابیل کی عمر کی بیٹھی ہوئی تھی۔ ہم دونوں وہاں کا خوبصورت منظر دیکھ رہی تھیں تو اچانک اس لڑکی پر نظر پڑی تووہ کچھ لکھ رہی تھی اور کھڑے ہو کر پھولوں بھرے درختوں کے سامنے باتیں کر رہی تھی۔ میری ساتھی نے کہا یہ ڈائری لکھ رہی ہے تو میں نے جواب دیا۔ نہیں یہ نظم لکھ رہی ہے اور درخت کے پھولوں سے ہمکلام ہے۔
جوں جوں میں یہ نظم”The trees know me“ پڑھتی گئی تو خیال آنے لگا یہ بالکل درست لکھ رہی ہےکیونکہ ایسا واقعہ میں ہیلی فیکس میں دیکھ چکی تھی 
رابیل اپنی کتاب کی نظم”The trees know me“ میں کہتی ہے۔ یہ درخت مجھے جانتے پہچانتے ہیں کھلے ہوئے بازوﺅں کے ساتھ کھڑے ہیں میں پرانے درختوں کے سائے میں اپنی جگہ بنا لیتی ہوں جب وہ ہلکی ہوا میں جھومتے ہیں تو میں ان کو دیکھتی ہوں۔ وہ پھول نچھاورکرتے ہیں تو میں سرگوشیوں کے انداز میں اپنی کہانیاں سناتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے وہ سنتے ہیں اور مجھے پہچانتے بھی ہیں میرے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے ہیں اور میں حیران رہ جاتی ہوں۔ وہ درخت کب سے یہاں کھڑے ہیں کتنی دہائیوں سے یہاں کھڑے ہیں۔ کئی راز ان کے سینے میں دفن ہیں۔
یہ ہے رابیل کی خوبصورت نظم اسی طرح کی اور بھی پیاری پیاری نظمیں ہیں جس کا بڑے خوبصورت انداز میں ذکر کیا ہواہے۔ نظم یا شاعری اس کے اندر موجود تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بڑھتی گئی اور صفحہ قرطاس پر عمدہ عمدہ شعر کہتی گئی۔
میں اس کو اپنی خوبصورت شاعری کی داد دیتی ہوں۔ ہر کوئی شعر نہیں کہہ سکتااللہ نے خاص خاص بندے مقرر کئے ہوتے ہیں اور خود بخود اللہ کی رضا سے شعر کہتے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اور نظمیں
سنڈریلا،
میرا خواب اور اولڈ فرینڈ کے علاوہ باقی نظمیں بھی بہت عمدہ لکھی ہیں
 friends Old میں لکھتی ہے۔
کہ دن میں کئی مرتبہ فون کرنے کےلئے سوچتی ہوں مگر میں آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ ہو سکتا ہے تم مجھ سے بہتر کام کرنے میں مصروف ہو لیکن میں تنہا،خاموش اداسی محسوس کر رہی ہوں۔ مجھے غلط نہ سمجھنا۔میں تمہارے لئے بہت سی خوشیوں کی خواہش کرتی ہوں۔
غرض کہتی ہے کہ وقت نے ہمیں علیحدہ کر دیا مگر میں چاہتی ہوں میرے عزیز دوست تم پھر بھی مجھے یہیں کھڑا پاﺅ گے۔
اتنی سی عمر میں اس کی سوچ بڑی پختہ ہے۔
کتابیں اور شاعری پڑھنے کے جذبہ کو عبادت کہا جاتا ہے۔ علم و فضل کسی کی ملکیت نہیں۔ جب تک مشیتِ ایزدی نہ ہویہ جذبہ انسان کے دل میں کہیں نہ کہیں چھپا ہوتا ہے۔ آخر ایک وقت ہے کہ اس انسان کے اندر چھپا ہوا جذبہ چاہے کتاب لکھنے کا یا شاعری لکھنے کا، خودبخود باہر آجاتا ہے۔ عمر کی اس میں کوئی قید نہیں ہوتی۔
یہ سب کنول بہزاد کاکمال ہے جس کا عکس ا س کی بچی رابیل میں موجود ہے جو بہت اچھی لکھاری ہے اور کبھی کبھار اس کی شاعری بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ اللہ کرے رابیل بلوچ کا قلم عمدہ عمدہ نظمیں لکھتا رہے۔آمین۔

ای پیپر دی نیشن