الیکشن 2024ءاپنے اختتام کو پہنچے۔ 5کروڑ سے زیادہ ووٹرز نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ معذور افراد بھی اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے پولنگ اسٹیشن پہنچے۔ تاہم اس بار الیکشن ڈے کے موقع پر وہ پہلے والی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی، موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند رہی جس سے لوگوں اور پولنگ سٹاف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
6بجے کے بعد تمام نجی ٹی وی چینلز پر انتخابی نتائج آنا شروع ہو گئے۔ جس بھی ووٹر یا سپورٹر کو اپنے پسندیدہ امیدوار کی کامیابی کی خبر ملتی، وہ خوشی سے نہال ہو جاتا جبکہ ہارنے والے کے سپورٹرز اور ووٹرزغم میں ڈوب جاتے۔ 8فروری کی رات تک نتائج کے حوالے سے کافی چیزیں واضح ہو گئیں تھیں۔ تاہم اگلی صبح بہت سے نتائج میں ردوبدل اور تبدیلی دیکھی گئی۔ ٹی وی اسکرین پر جن کی ہار دکھائی جا رہی تھی وہ جیتے ہوئے دکھائی دئیے اور جیتنے والے ہار گئے۔
نتائج کے ان تضادات نے جہاں بہت سا ابہام پیدا کیا ہے وہاں الیکشن کے صاف شفاف ہونے پر بھی بہت سے سوال اٹھا دئیے ہیں۔ دنیا بھر کا میڈیا بھی ان انتخابات پر تحفظات کا اظہار کر رہا ہے جس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کو عوام اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اور اس جماعت کے حامی اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں دھاندلی کی مرتکب ہوئی ہے۔
تاہم اس الزام میں کوئی صداقت ہے تو الزام لگانے والوں کو ثبوتوں کے ساتھ الیکشن ٹربیونل یا ہائی کورٹ میں جانا چاہیے۔ زبانی جمع خرچ سے تو کچھ نہیں ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کے حق میں تھی اور اُسے جتوانا مقصود تھا تو ن لیگ کو زیادہ سیٹیں ملنی چاہئیں تھیں۔ قومی اسمبلی کے لیے ن لیگ کو 72سیٹوں کا ملنا ظاہر کرتا ہے کہ الزام میں کوئی حقیقت نہیں۔ پھر بھی الیکشن ٹربیونل اور عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ جہاں ایک بھی الزام درست ثابت ہوا، تو مان لیا جائے گا کہ سچ کہا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا بھی ٹھیک کہہ رہا ہے۔
زیر نظر کالم تحریر ہونے تک پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ تین امیدوار اپنے الزام کے ساتھ لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس کا دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں۔ اپنے حلقوں کے نتائج کے خلاف پٹیشنز بھی دائر کر دی ہیں۔ لاہور کے حلقہ 127سے سینئر ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے، جو اس حلقہ سے ایم این اے کے امیدوار بھی تھے، لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے۔ الزام لگایا ہے کہ 13پولنگ اسٹیشنز کے سوا کسی بھی اور پولنگ اسٹیشن کی گنتی اُن کے نمائندوں کے سامنے نہیں کی گئی ، نہ انہیں فارم 47دیا گیا۔ سلمان اکرم راجہ کی اس پٹیشن پر جسٹس نجفی نے لاہور کے الیکشن کمیشن کو اس حلقہ سے نتائج کا اعلان کرنے سے روک دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس حلقے سے پاکستان استحکام پارٹی کے امیدوار عون چودھری کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد سے بھی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ دو امیدواروں شعیب شاہین اور علی بخاری نے اسی نوعیت کی پیٹیشنز اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی ہیں جن میں47اور48کے دونوں حلقوں کے نتائج کو چیلنج کیا ہے۔ ان حلقوں میں شعیب شاہین اور علی بخاری ایم این اے کے امیدوار تھے۔
8فروری کو ہونے والے الیکشن کے حوالے سے مبینہ دھاندلی کی جو خبریں گردش کر رہی ہیں ان پر نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ابھی تک کوئی مو¿قف سامنے نہیں آیا ۔ تاہم پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کے تناظر میں لگائے جانے والے الزام میں کافی وزن ہے کہ دھاندلی کے لئے موبائل اور انٹرنیٹ سروس کو الیکشن کے موقع پر بند کیا گیا تاکہ دھاندلی آسانی سے ہو سکے۔ یہ الزام حقیقت پر مبنی دکھائی دیتا ہے کیونکہ خود پی ٹی اے 7فروری کو ایک اعلامیے میں واض±ح کر چکا تھا کہ 8فروری کو الیکشن کے موقع پر نہ تو موبائل اور نا ہی انٹرنیٹ سروس بند یا معطل ہو گی۔ مگر ایسا ہوا۔ جس سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ حتیٰ کہ غیر ملکی میڈیا کے جو مبصرین اور نمائندے پاکستان میں موجود تھے انہیں بھی اپنے چینلز کے توسط سے کہنا پڑا کہ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی جس کا واضح ثبوت موبائل اور انٹرنیٹ سروس کا بند ہونا بھی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر، پی ٹی آئی کے ترجمان اور اسلام آباد سے ایم این اے کے آزاد امیدوار شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں الیکشن کے اختتام پر رات گئے تک وہ ایک بڑے مارجن سے جیت رہے تھے ، مگر صبح انہیں ہرا دیا گیا۔ اِس ہار اور دھاندلی کا ذمہ دار وہ کھلے الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے ”یہ سب انہیں کا کیا دھرا ہے جو یہاں سب سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہیں“، تاہم شعیب شاہین کی جانب سے تاحال کوئی شواہد پیش نہیں کئے گئے جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن اِن الزامات کا جواب دینے کی بجائے فی الحال نتائج مرتب کرنے میں مصروف ہے۔
الیکشن ڈے کے موقع پر پیش آنے والے مبینہ واقعات کے بعد پہلے سے موجود تقسیم اور سیاسی دراڑ مزید گہری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور اداروں نے اس بار بھی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔
اگرچہ یہ انتخابات پُرامن ہوئے۔ لوگ سسٹم پر اعتبار کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے نکلے۔ اپنا ردعمل پرچی سے دیا۔ جو کہ خوش آئند ہے۔ یہی جمہوریت کی کامیابی ہے۔ مگر جب اچانک نتائج روک دئیے جائیں ، نیٹ سروس بند کر دی جائے اور مکمل نتائج آنے میں دو دن لگیں تو پھر نتائج پر شکوک و شبہات پیدا ہوں گے ہی۔
کیا پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ایسا کیا گیا۔ نظر نہ آنے والی دھاندلی کی گئی تو پاکستان میں یہ سب کچھ ممکن ہے۔ کسی کے اشارے پر یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 2018ءکی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس کے نتائج کو پی ٹی آئی کے سوا کسی بھی جماعت نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کے نتائج پر سوالات آج بھی موجود ہیں۔
الیکشن 2024ءاگرچہ اپنے اختتام کو پہنچا مگر دنیا بھر کا میڈیا جن میں سی این این بھی شامل ہے، مسلسل نشاندہی کر رہا ہے کہ تحریک انصاف کو روکنے کے لیے ایسا کیا گیا۔ تاکہ وہ اقتدار سے دور رہے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے اگرچہ بہت بڑی تعداد میں نیشنل اسمبلی کی سیٹیں جیت لی ہیں۔ آزاد امیدواروں کی حیثیت سے وہ اکثریت میں سامنے آئے ہیں۔ ان کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا نمبر ہے۔ جنہوں نے دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔
جبکہ وفاق اور صوبوں میں بھی اب نئی حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ جوڑ توڑ ہو رہا ہے۔ سیاست کے کھلاڑی حکومتیں بنانے کے لیے ہر طرف اپنی بساط پھیلا رہے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں کون سی جماعتیں حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ سارا عقدہ اب کھلنے کو ہے۔ جس کا جتنا مینڈیٹ ہے سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ سیاست میں رواداری اور وضع داری بہت ضروری ہے۔ خیال نہ رکھا گیا تو ہم میںبہت زیادہ تقسیم اور دراڑ نظر آئے گی۔