سردار عبدالرب نشتر : ایک عظیم رہنما

تحریک پاکستان اور پھر تعمیروترقی اور استحکام پاکستان کے لیے جن عظیم المرتبت افراد ملت کا نام ہماری ملی تاریخ کا عنوان جلی ہے ان میں ایک سردار عبدالرب نشتر ہیں بلا شک وہ ان راہنماﺅں میں سے ہیں جو آج بھی ملک و ملت کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں اگر ہمیں ان جیسے قومی راہنما ملتے تو آج پاکستان دنیا میں بلند مقام و مرتبہ پر ہوتا اور قائد اعظم کا اسلامی و فلاحی مملکت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوچکا ہوتا اور ہم یوں اءایم ایف کے غلام نہ ہوتے - سردار عبدالرب نشتر فکر وعمل کی یک جا تصویر تھے جو اپنے اعلی کردار کی حسین تصویر نقش کرگئے اور ہماری نءنسل کے لئے روشنی کامینار ہیں۔
تحریک پاکستان اور تعمیروترقی اور استحکام پاکستان کے لیے اپنے شب وروز وقف کرنے والے عظیم المرتبت راہنماﺅں کا جب بھی تذکرہ ہو گا تو سردار عبدالرب نشتر کا نام نمایاں ہوگا-
سردار عبدالرب نشتر 13 جون 1899 کو صوبہ کے پی کے ایک متمول تاجر عبدالمنان خان کے ہاں پشاور میں پیدا ہوے انہیں شروع سے ہی علم و ادب شاعری اور تصوف سے دلچسپی تھی ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ پنجاب اور پھر علی گڑھ مسلم یونیودسٹی سے تعلیم حاصل کی اس ماحول نے مزید متاثر کیا اور انکی صلاحیتوں میں مزید نکھار اگیا تعلیم مکمل کرنے کے بعد بطور وکیل عملی زندگی میں داخل ہوئے اور ساتھ قومی مسائل و سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگے ۔ اس حوالے سے وہ مولانا محمد علی جوہر سے متاثر ہوئے جو ان دنوں تحریک خلافت کی قیادت کررہے تھے یہی وہ تحریک ہے جس نے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کی اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تیار ہوئی اس تحریک کے کارکنوں نے ہی اگے چل کر تحریک پاکستان کی راہ ہموار کی- سردار عبدالرب نشتر نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور اپنی جدوجہد کے باعث سیاسی حلقوں میں معروف ہوگئے - 
قائد اعظم نے جب لندن سے واپسی پر مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور مسلم لیگ کو عوامی تنظیم بنایا تو سردار نشتر کو بھی لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی جس پر سردار نشتر ال انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے- 1937 میں لیجیسٹوکونسل کے ممبر منتخب ہوئے 1942 میں جب ڈاکٹر خان کی کے پی کے میں کانگریسی حکومت ختم ہوگئی تو قائد اعظم کے ایما پر نئی حکومت میں مسلم لیگی وزیر کی حیثیت سے شامل ہوے -اپنی جدوجہد اور شاندار مساعی سے جلد ہی آل انڈیامسلم لیگ کی قیادت میں شمار ہونے لگے -قائد اعظم ان پر پورا بھروسا کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ 1945 میں جب لارڈ ویول نے انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے باہمی مذاکرات کا اہتمام کیا تو اس میں مسلم لیگ کی طرف سے قائد اعظم کے ساتھ سردار عبدالرب نشتر بھی تھے اس سے قائد کے اعتماد اور تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔
1946 کے تاریخی انتخابات جو اآل انڈیا مسلم لیگ نے قیام پاکستان کے نام پر لڑے سردار عبدالرب نشتر نے مسلمان قوم میں بیداری کےلئے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے پورے برصغیر کا دورہ کیااور تحریک پاکستان کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کی پھر جب کے پی کے میں جب الحاق پاکستان کے لیے ریفرینڈم ہوا تو سردار عبدالرب نشتر نے بھر پور کام کیا اور اس ریفرینڈم میں لیگ کامیاب ہوءاس کے بعد جب برطانیہ سرکار نے ہندوستان میں عبوری حکومت بنائی اور اس میں لیگ بھی شامل ہوئی تو قائد اعظم نے سردار عبدالرب نشتر کو وزیر مواصلات نامزد کیا انہوں نے یہ ذمہ داری احسن انداز میں نبھائی- تقسیم ہند کے وقت دونوں ممالک میں اثاثوں کی تقسیم کے لیے جو کمیٹی بنی سردار نشتر نے پاکستان کی طرف سے اس میں کام کیا- قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے انھیں پہلا وزیر مواصلات بنایا پھر انھیں پنجاب کا گورنر بنایا گیا - لیاقت علی خان کے بعد جب لیگ کی قیادت چودھری محمد علی سے ہوتی ہوءان تک پہنچی تو انھوں ایک بار پھر مسلم لیگ کو عوامی تنظیم بنادیا ان کی اصول پسندی کا اندازہ اس امر سے ہو جاتا ہے کہ جب خواجہ ناظم الدین کو ملک غلام محمد نے برطرف کیا تو سردار نشتر کو بلا کر رام کرنے کی سعی کی گئی تو قائد اعظم کے اس ساتھی نے کوئی بھی عہدہ لینے سے انکار کردیا اور یوں اقتدار کو ٹھکرا کر سیاست میں اصول پسندی کی اعلیٰ مثال قائم کی اور آئین ساز اسمبلی ٹوٹنے پر ڈٹ کر مخالفت کی اور ھر طرح کے حالات کا مقابلہ جواں مردی سے کیا اور سیاست میں اصولوں کا جھنڈا بلند رکھا ۔ آخرکار یہ جری اور اصولوں کا متوالا سیاست دان 14 فروری کو اس دنیا سے جب رخصت ہوا تو قوم قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد تیسری بار سوگوار ہوئے اور ملکی سیاست میں زبردست خلا پیدا ہوا جو آج تک پر نہیں ہوسکا- 
سردار عبدالرب نشتر نے میدان سیاست میں دیانت و امانت کا خیال رکھا ان کی دیانت مسلمہ تھی ان کا یہ واقعہ عام ہے کہ ایک روز گورنر ہاوس میں دفتری کام کررہے تھے کہ ان کے بیٹے دفتر میں اے اور ٹیلی فون کرنے لگے تو سردار صاحب نے بیٹے سے کہا کہ ذاتی کام کےلئے سرکاری فون کا استعمال نامناسب ہے-بیٹے نے کہا کہ لوکل کال تھی سردار صاحب نے کہا کہ لوکل کال کا بھی بل آتا بے ذاتی فون موجود ہے ذاتی کاموں کے لیے ذاتی فون استعمال کیا کریں وہ گورنر ہاﺅس قیام کے دوران بھی صبح نماز فجر کے بعد مال روڈ پر سیر کرتے اور پیدل چلنے والے لوگوں سے ملتے اور تبادل خیال کرتے- وہ کہ اعلیٰ درجہ کے شاعر تھے جب ملک غلام محمد نے انھیں رام کرنے کی سعی کی تو ان کا یہ شعر بہت مقبول ہوا۔
بس اتنی سی بات پر ہم سے رہبری چھینی گئی
کہ ہم سے قافلے منزل پر لٹائے نہیں جاتے 
الغرض سردار عبدالرب نشتر سچائی، سادگی، اصول پرستی ، حق گوئی،دیانت و امانت کا پیکر اور عزم ہمت کا کوہ گراں تھے وطن عزیز کو ان جیسے رہنماوں کی ضرورت ہے ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سیاست میں ان جیسا کردار فروغ دیا جائے اور ملک و ملت کے لیے ان جیسا جذبہ اپنایا جائے اور ان جیسی قیادت منتخب کی جائے۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن