دھاندلی کا شور ہر الیکشن میں اٹھتا ہے لیکن اس بار معاملہ منفرد ہے۔ ہمیشہ یہی ہوا کہ ایک یا زیادہ سے زیادہ مزید ایک جماعت نے دھاندلی کی شکایت کی لیکن اس بار یہ انہونی ہوئی کہ ایک جماعت کو چھوڑ کر باقی سبھی جماعتیں دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
جو ایک جماعت شکوہ کناں نہیں ہے، وہ متحدہ قومی موومنٹ ہے جس نے کراچی سے 14 سیٹیں جیت لیں۔ کراچی میں ایک لطیفہ ان دنوں زیر گردش ہے، یہ کہ منقولہ تو یہ ہوا تھا کہ متحدہ کو کراچی سے 25 سیٹوں پر جتوا دیا جائے لیکن متحدہ ڈٹ گئی کہ جناب ، ہم تو 14 سے اوپر ایک سیٹ بھی نہیں لیں گے۔ خیر ہوئی کہ متحدہ ڈٹ گئی ورنہ 22 میں سے 25 سیٹیں جیت کر وہ نیا معجزہ بھی رقم کر سکتی تھی۔
______
سب سے زیادہ شکوہ حقیقی آزادی گروپ کو ہے۔ اسے 90 سیٹیں ملیں۔ اس نے کہا کہ وہ 180سیٹوں پر جیت چکی تھی لیکن 90 سیٹیں اس سے دھاندلی کر کے چھین لی گئیں۔ یہ ابتدائی دعویٰ تھا، بعدازاں ترمیم کر کے چھینی جانے والی سیٹوں کی تعداد 77 کر دی گئی۔ پھر مزید ترمیم ہوئی اور گنتی 60 پر آ گئی۔ اب تازہ ترین بیان پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ کی طرف سے آیا ہے کہ ہمیں 50سیٹیں ملنے کا انتظار ہے۔ مل جائیں تو حکومت بنائیں ورنہ اپوزیشن میں بیٹھیں۔
گویا گنتی 50 کی رہ گئی۔ کیا اسے فائنل سمجھا جائے؟۔ اگرچہ پارٹی نے جن انتخابی نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے، ان کی تعداد 21 ہے۔ جن میں سے تین پر ازسرنو گنتی اور جانچ پڑتال ہو گئی، تینوں مسلم لیگ کو مل گئیں۔ باقی ماندہ دعویٰ 18 کا رہ گیا چنانچہ 50 کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔
_____
حقیقی آزادی پارٹی کے پاس سیٹیں 90 کی تعداد میں ہیں لیکن ذرائع کہتے ہیں کہ یہ سبھی اس کی نہیں ہیں، کم و بیش دس بارہ سیٹیں محض آزاد ارکان کی ہیں یعنی ایسے آزاد جن کے ساتھ حقیقی کا لاحقہ نہیں لگتا۔
اب حکومت کون بنائے گا؟۔ جمہوری ضابطہ اخلاق کا ایک قاعدہ (لازمی نہیں اختیاری) یہ ہے کہ کسی جماعت کو حکومت سازی کیلئے مطلوبہ تعداد نہ ملے تو وہ اپوزیشن میں بیٹھا کرتی ہے۔
اس اختیاری اختیار کے حساب سے تو پاکستان کی تمام جماعتوں کو اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے کہ مطلوبہ اکثریت کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
حقیقی آزادی والے مطلوبہ اکثریت سے 40 کے بقدر پیچھے ہیں۔ مسلم لیگ والوں کو لگ بھگ 50 اور پیپلز پارٹی کو 76 کی قلت کا سامنا ہے۔ سبھی نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ت کیا ہو گا؟۔ کاکڑ سرکار کو مزید 5 سال ملنے سے تو رہے؟۔
_____
پی ٹی آئی کی کھلی کھلی خواہش ہے کہ مسلم لیگ ن کو دبا کر پھینٹی لگائی جائے، یہی خواہش دبی دبی سی کیفیت کے ساتھ پیپلز پارٹی کی بھی ہے۔ دونوں ملا کر اپنی یہ مشترکہ خواہش پوری کر سکتی ہیں۔ دونوں ملا کر مطلوبہ اکثریت سے بھی زیادہ ارکان دکھا سکتی ہیں اور دو جماعتی مخلوط حکومت بنا سکتی ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ اس تصور سے دونوں جماعتوں کے منہ میں پانی آ رہا ہے، اب دیکھئے ، زیادہ پانی کس کے منہ میں آتا ہے اور بسلسلہ جنبانی میں پہل کون کرتا ہے۔
بظاہر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اتحاد کے امکانات زیادہ ہیں۔ دونوں کی طرف سے وسیع تر قومی حکومت بنانے کی بات ہو رہی ہے جس میں دوسری جماعتیں بھی شامل ہوں گی لیکن قومی سیاست میں اکثر معاملات ’’بظاہر‘‘ سے ہٹ کر بھی ہو جاتے ہیں۔
_____
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے یہ کہہ کر امارت سے استعفیٰ دے دیا کہ پارٹی الیکشن ہار گئی اس لئے عہدہ چھوڑ رہا ہوں۔
لیکن جماعت اسلامی تو ہمیشہ الیکشن ہاری ہے، یہ کوئی پہلی ہار تو نہیں۔ معاملہ کچھ اور ہی ہو گا اور کوئی نہ کوئی ’’اندرونی ذرائع‘‘ اس کا سراغ لگا ہی لیں گے۔
بہرحال، سراج الحق پنامہ کیس کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔ وہ سپریم کورٹ جا پہنچے تھے کہ پنامہ کاغذات میں جن سینکڑوں افراد کے نام آئے ہیں، ان سب کو چھوڑیں (یعنی سب کو عام معافی دے دیں) اور اس آدمی کو تاحیات نااہل کر دیں جس کا نام ان کاغذات میں نہیں آیا ہے یعنی نواز شریف۔
ان کی قیادت میں جماعت اسلامی نے نواز شریف کیخلاف کارروائی کیلئے طویل عرصہ قانونی جنگ لڑی۔ اگرچہ چنداں غیر ضروری تھی کہ فیصلہ کہیں ہو چکا تھا۔ بہرحال جماعت نے اسے اپنی کارکردگی جانا اور ملک بھر میں یوم مٹھائی خوری منایا، جب نواز شریف بالآخر نااہل ہوئے۔
مولانا طارق جمیل اور مفتی عبدالقوی کی طرح سراج الحق بھی عمران خان کو رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے تربیتی نصاب میں خان صاحب کی ’’سیرت‘‘ کو شامل نہیں کرایا حالانکہ ممتاز کردار نویس ریحام خاں کی خدمات آسانی سے لی جا سکتی تھیں، نیز زلفی بخاری اور علی امین گنڈاپوری جیسے ’’رول ماڈل‘‘ بھی موجود تھے۔
_____
اس سارے الیکشن ہنگامے میں ہمارے پنڈی والے شیخ جی بالکل خاموش ہیں۔ ارے بھئی وہی چلّے والا شیخ جی۔ خیر سے ان کا دوسرا چلّہ بھی مکمل ہوا۔ انہیں قومی اسمبلی کی دونوں سیٹیں شکست ہوئی لیکن ایسا نہیں کہ انہیں کوئی ووٹ نہیں ملا۔ انہیں ملنے والے ووٹوں کی تعداد سینکڑں میں بتائی جاتی ہے۔
طویل عرصے بعد ’’پنڈی بوائے‘‘ کہلانے والے شیخ الشیوخ ’’پنڈی بدر‘‘ ہو گئے۔ پنڈی سے مراد شہر نہیں، شہر کی سیاست ہے۔ پہلے گیٹ نمبر چار کی نوکری چھوٹی، پھر ’’یار‘‘ کی یاری سے محروم ہو گئے۔ سنا ہے، تاحیات چلّے پر جانے کا سوچ لیا ہے یعنی چھوٹی سی عمر میں بجوگ لے لیا۔