جمعۃ المبارک 15  شعبان المعظم 1446ھ ‘  14  فروری 2025 ء

آئی ایم ایف کا افسران کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کی مدت میں توسیع سے انکار 
خدا جانے یہ آئی ایم ایف والوں کو سرکاری افسران سے کیا دشمنی ہے۔ اچھا بھلا وہ کھا پی کر ڈکاریں مار رہے تھے کہ اب اس عالمی مالیاتی ادارے نے ان سے ان کے اخراجات، آمدن اور اثاثوں کے ساتھ ساتھ ان کے پڑھنے والے بچوں کے تعلیمی اداروں اور ان کی فیسیں بھی معلوم کرنے کا کہہ کر ان شریف سفید پوش افسروں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ افراتفری میں وہ مقررہ وقت میں توسیع کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ حسب عادت جھوٹے سچے دستاویزات بنا کر اپنے کو وہ گنگا نہائے معصوم ثابت کر سکیں مگر آئی ایم ایف والے بھی یہ سب الٹ پھیر جانتے ہیں۔ وہ کوئی پاکستانی تحقیقاتی کمیٹی تو ہے نہیں کہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر جو مرضی ہے، ان کی کہہ دیا جائے، پڑھا دیا جائے اور وہ مان جائیں۔ یہ عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو دنیا بھر کو چلاتا ہے، امداد دیتا ہے، قرضہ دیتا ہے‘ تو وہ وصول کرنا بھی جانتا ہے۔ اب اس ادارے نے پاکستانی اعلیٰ افسران کا بھی کچا چٹھا کھولنے کا فیصلہ کیا ہے کہ معلوم ہو سکے کہ ایک سرکاری افسر اتنی تنخواہ میں ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات، لاکھوں روپے بچوں کی کی فیسیں، لاکھوں روپے یوٹیلٹی بلز کیسے ادا کرتے ہیں۔یہ تو کوئی جادوئی طاقت ہی ایسا کر سکتی ہے۔ اگر آمدن ماہانہ دو لاکھ ہے تو اخراجات، وہ بھی شاہانہ 20 لاکھ کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایسا کون سا جادوئی چراغ سرکاری افسران کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ ذرا عوام کو بھی اور دنیا کو بھی پتا چلے۔ اب اس معلومات کے افشا کرنے سے تو بہتر ہے کئی افسران منہ چھپائے ادھر ادھر چلے جائیں۔ ان میں سے بہت کم افسر لینڈ لارڈ ہوتے ہیں، باقی سب افسری ملنے کے بعد بن جاتے ہیں۔ اب بھلا یہ اپنے شاہانہ اخراجات کی بابات کیا بتائیں گے اور اثاثے جو بنائے ہیں، ان کو کس طرح ظاہر کریں گے، اس طرح تو وہ عوام کے سامنے بھی عریاں ہو جائیںگے۔ اب آئی ایم ایف والوں نے تو مقررہ وقت میں توسیع سے مکمل انکار کر دیا ہے۔ 
پیرس اے آئی سمٹ میں فرانسیسی وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم سے ہاتھ نہیں ملایا
فرانس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ سلوک ہوا، ویسا سلوک اگر ہمارے ہاں کسی بارات میں شامل میراثی کے ساتھ بھی ہوا ہوتا تو وہ پوری بے شرمی کے ساتھ بارات میں اودھم مچاتا، فوں فاں کرتا، روٹی چھوڑ کر خوب باتیں بنا کر واپس چلا جاتا مگر آفرین ہے مودی پر کہ اتنے بڑے غیرملکی مہمانوں کے سامنے نظرانداز ہونے پر بھی کھسیانی ہنسی چہرے پر سجائے ڈھیٹ بن کر بیٹھے رہے۔ اب فرانسیسی وزیراعظم میکرون کو جب مہمانوں کی صف میں بیٹھے امریکی نائب صدر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل و دیگر لوگ ہاتھ ملانے کے لیے نظر آئے تو ان کے پہلو میں بیٹھے بھارتی وزیراعظم کو کیوں نظرانداز کر گئے جنھوں نے بڑی خفت سے ہاتھ بھی آگے بڑھایا مگر میکرون نے تو جیسے دیکھا ہی نہیں، آگے نکل گئے، بعد میں دل ہی دل میں مودی 
کرکے دل کا چور کیسے بیٹھے ہیں حضور
جیسے جانتے نہیں، پہچانتے نہیں
کہتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑ بڑ کرتے اپنی بھڑکاس نکالتے رہے ہوں گے۔ ایک تو پہلے ہی پیرس میں اے آئی سمٹ کانفرنس میں آمد کے موقع پر سینکڑوں کشمیریوں نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے پرچم اٹھائے بھارت مردہ باد مودی سرکار مردہ بات اور کشمیر کی آزادی کے لیے نعرے بازی اور مظاہرہ کرکے بھارتی وزیراعظم کا موڈ خراب کر دیا، باقی رہی سہی کسر میزبان ملک کے وزیراعظم نے انھیں نظرانداز کرکے پوری کر دی۔ کیا مودی کوئی اچھوت ہیں کہ ان سے ہاتھ ملانے سے میکرون کو کوئی پاپ ہوتا۔ شاید دنیا بھر میں مودی کے سیاہ انسانیت دشمن کارناموں کی وجہ سے اب کوئی بھی ان سے ملنا پسند نہیں کرتا، امریکا، کینیڈا، فرانس تو کھلم کھلا بھارت کی تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے اس کے خلاف چارج شیٹ دے چکے ہیں۔ جس کا جواب ابھی تک بھارت نہیں دے سکا۔ ایسی حالت میں تو تھوڑی بہت بے عزتی ہوتی ہی ہے۔ 
 شیرافضل مروت کا پی ٹی آئی میں سفر تمام، بانی نے نکال دیا
یہ بات ہم پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ کسی بھی جماعت میں ابھی تک اتنی جمہوریت نہیں آئی کہ اس کا سربراہ اپنے مقابل کوئی توانا آواز یا وجود کو برداشت کرے، وہ بھی زیادہ دیر تک۔ تو جناب بانی پی ٹی آئی کی بھی بس ہو گئی اور انھوں نے دومرتبہ معطل کرنے کا شوکاز نوٹس دینے کے باوجود جب دیکھا کہ مروت کی گڈی تو صوابی جلسے میں بھی خاصی چڑھی ہوئی تھی تو انھوں نے یس سر یس سر جی حضوری کرنے والے ٹولے کی باتوں سے تنگ آکر جو ہروقت انھیں نت نئی کہانیاں سناتے رہتے ہیں، مروت کی جماعت کی بنیادی رکنیت خارج کرنے اور نکالنے کے ساتھ ان سے ایم این اے کی نشست بھی واپس لینے کا حکم دیدیا ہے۔ یوں اب ایک اور پی ٹی آئی کا دبنگ رہنما اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ یہ بات لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی سے نکلنے یا نکالے جانے والوں کی طرح پی ٹی آئی کے نکالے عہدیداروں کا بھی پھر کوئی حال نہیں ہوتا بے شک کہتے ہیں:
جس دیے میں جان سے باقی ہے
وہ دیا رہ جائے گا
مگر ایسے جاندار چراغ اب کم ہی باقی رہ گئے ہیں جو تنہا جل کر بھی روشنی بکھیرتے ہیں۔ دوسری جانب جنید اکبر نے رپورٹ مانگی ہے کہ صوابی جلسے میں کون کون کتنے بندے لایا، ان کا ریکارڈ اور حساب دیا جائے۔ ایسا ہی بیان پنجاب کی رہنما عالیہ حمزہ نے بھی دیا ہے کہ جو رہنما، ایم این اے، ایم پی اے جلسہ میں شامل نہ ہوئے ان کی بھی فہرست بنائی جائے۔ شاید بانی جلسہ میں شرکاء کی کم تعداد کی وجہ سے ناراض ہیں اور سخت ایکشن لینے کے موڈ میں ہیں تاکہ آئندہ سب الرٹ رہیں اور ان کے حکم کو ایویں نہ لیں بلکہ حکم حاکم مرگ مفاجاتت کا قول یاد رکھیں ورنہ اپنا اپنا راستہ ماپیں۔ 
مجھے کنگ شنگ نہ کہا جائے، بابر اعظم
بے شک اس بات کا ادراک اگر ہر کھلاڑی کو ہو جائے اور وہ میڈیا پر اپنی شہرت دیکھ کر ہواؤں میں نہ اڑے اور کھیل پر تمام توجہ دے تو اس کی کارکردگی میں نکھار آسکتا ہے کیونکہ اس کی تمام توجہ کھیل پر ہوگی مگر ہمارے ہاں میڈیا نے اشتہارات کمپنیوں نے کھلاڑیوں کو کھیل سے زیادہ فلمی ستارے بنا دیا ہے۔ کھلاڑی بھی تو انسان ہوتے ہیں۔ بلاوجہ تعریف سن کر تو کوئی بھی ٹیں ٹیں کرے اپنی چونچ میں پکڑی پنیر کا ٹکڑا گرا دیتا ہے جو چالاک لومڑی لے جاتی ہے۔ بابر اعظم بے شک دنیائے کرکے کے ایک بڑے اچھے کھلاڑی ہیں، اب ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک اچھا کھلاڑی ہمیشہ نمبرون ہی رہے، سنچریاں ہی بنائے، اتار چڑھاؤ کھیل کا حصہ ہوتا ہے، اب ہمارے ہاں اچھا کھیلو تو واہ واہ کرکے کھلاڑی کو سر پر بٹھاتے ہیں، خراب کھیلو تو بے رحمی سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اب ایک بار پھر بابراعظم زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے تو انھوں نے منفی تبصروں سے تنگ آکر درست کہا ہے کہ لوگ انھیں کنگ شنگ کہنا بند کریں، واقعی جب بہت بڑا نام ہو توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں مگر پریشانی کی بات نہیں۔ وہ ایک بڑے کھلاڑی ہیں، اپنے کھیل پر توجہ دیں، باقی رہی بات دنیا کی تو وہ کب چپ رہتی ہے، اس لیے انھیں کہنے دیں۔ آپ اپنی کارکردگی پر توجہ دیں، جو ان کھلاڑی کے لیے ابھی بہت وقت ہے اور مواقع بھی۔ اپنی ٹیم کے ہر کھلاڑی سے سب محبت کرتے ہیں، اب جس سے محبت ہوتی ہے، غصہ بھی تو اس پر آتا ہے۔ کہتے ہیں 
ان کو آتا ہے پیار پہ غصہ
ہم کو غصہ پہ پیار آتا ہے

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...