کسی بھی معاشرے میں امن و سکون کے لیے عدل و انصاف کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی معاشرہ امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا ۔ جس معاشرے میں عدل وانصاف ختم ہو جائے وہاں کے لوگ بے راہ روی کا شکا ر ہو جاتے ہیں اور جرائم میںاضافہ ہوتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو اگرچہ تمھارے رشتہ دار کا معاملہ ہی ہو۔ (سورۃ الانعام)
سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :اے ایمان والو، اللہ کے حکم پر خوب قائم ہو جائو انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کوکسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو ، انصاف کرو وہ پرہیز گاری سے زیادہ قریب ہے ۔
نبی رحمت شافع محشرﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں سے ہمیں عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔
حضرت اُسید بن حضیر ؓ فرماتے ہیں کہ وہ ہنسی مذاق کرنے والے آدمی تھے ۔ ایک مرتبہ میں نبی کریمﷺکی بارگاہ میں لوگوں کو ہنسا رہا تھا کہ نبی کریمﷺ نے میری کمر میں چھڑی چبھو دی ۔ میں نے تکلیف کی شکایت کی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا، تم بدلہ لے لو۔ انھوں نے کہا، یارسول اللہﷺ، آپؐ کے جسم مبارک پر قمیض ہے میرے جسم پر قمیض نہیں تھی ۔ نبی کریمﷺ نے اپنے جسم مبارک سے قمیض اٹھائی تو حضرت اُسید ؓ آپؐ سے لپٹ گئے اور عرض کی، یا رسول اللہﷺ، میرا یہی ارادہ تھا ۔(ابو ادائود)
حضرت فضیل بن عباس ؓ بیا ن کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ مرض کے ایام میں میرا ہاتھ پکڑ کر مسجد میں تشریف لائے اور ممبر پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا :’اے لوگو، میں کبھی کسی کی پیٹھ پر کوئی کوڑا میرا ہے تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے وہ مجھ سے بدلہ لے سکتا ہے اور اگر میں نے کبھی کسی کو برا بھلا کہا ہے تو میری آبرو حاضر ہے وہ مجھ سے انتقام لے لے اور اگر میں نے کسی کا مال لیا ہے تو یہ میرا مال حاضر ہے وہ اپنا حق لے لے۔
کوئی شخص یہ ہر گز نہ سوچے کہ بدلہ لینے کی وجہ سے اسے رسو ل خداﷺکی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ غور سے سن لو ناراض ہونا میرامزاج نہیں اور نہ ہی یہ میری شان کے لائق ہے ۔ خبر دار، تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کا اگر مجھ پر کوئی حق ہے تو وہ لے لے ۔ (معجم الاوسط)
ایک مرتبہ ایک یہودی اور منافق کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ یہودی نے کہا، نبی کریمﷺ سے فیصلہ کراتے ہیں لیکن منافق کا دل صاف نہیں تھا، اس نے کہا کہ تمھارے عالم کعب بن اشرف سے فیصلہ کراتے ہیں ۔ لیکن یہودی اس پر رضا مند نہ ہوا اور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میںحاضر ہوئے ۔ نبی کریمﷺ نے دونوں کی بات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ دیا ۔ (تفسیر قرطبی )