اسلام آباد (این این آئی+آئی این پی) قومی اسمبلی میں سیاسی قیادت اور جمہوری نظام پر اعتماد کی قرارداد پیش کر دی گئی ہے، جس میں تمام ریاستی اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے فروغ کیلئے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی آئینی اصول پر پوری طرح عمل کیا جانا چاہئے اور تمام ریاستی اداروں کو آئین کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان سمجھتا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام جو اپنے چار سال پورے کرنے کے قریب ہے پاکستان کے لوگوں کی طرف سے دی گئی عظیم قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ یہ ایوان جمہوری قوتوں کے اس اعتقاد کا اعادہ کرتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل اور اس کے عوام کی فلاح آئین اور جمہوری اداروں کے استحکام، قومی مسائل کے حل کیلئے آئینی طریقہ کار اختیار کرنے، وفاق کو مستحکم کرنے اور پاکستان کے عوام کو با اختیار بنانے میں مضمر ہے۔ یہ ایوان سمجھتا ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے فروغ کیلئے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی آئینی اصول پر پوری طرح عمل کیا جانا چاہئے اور تمام ریاستی اداروں کو آئین کے تحت مقررکردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ایوان اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ اقتدار اعلی پاکستان کے عوام کے پاس ہے اور پارلیمنٹ عوام کی اجتماعی بصیرت کا مخزن ہے، قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان سیاسی قیادت کی جانب سے جمہوریت کے استحکام کیلئے کی جانیوالی کوششوں کی تائید اور حمایت کرتا ہے اور ان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ اسفند یار ولی کی پیش کردہ اس قرارداد پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیر کو بحث ہوگی جس کے بعد قرارداد کی منظوری کیلئے رائے شماری کرائی جائیگی۔آئی این پی کے مطابق حکومتی اتحادیوں کی طرف سے قومی اسمبلی میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم کے حق اور بعض اداروں کیخلاف قرارداد کی حمایت نہ کرنے پر ہاﺅس بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں کئے گئے فیصلہ کے برعکس جمعہ کو وزیراعظم کے خطاب کے بعد اچانک قرارداد پیش کر دی گئی، نئی پیش کردہ قرارداد میں صدر اور وزیراعظم پر اعتماد کے اظہار کی بجائے صرف جمہوریت کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس قرارداد پر بحث پیر 16 جنوری کو کرائی جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق حکومت کی طرف سے جو قرارداد پہلے تیار کی گئی تھی اس کے پیرا نمبر 3 اور 6 کا متن ذرائع کے مطابق بہت سخت تھا جس پر (ق) لیگ اور ایم کیو ایم نے سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حمایت کرنے سے انکار کر دیا اور جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات علی الصبح تک حکومتی ٹیم اور اتحادیوں کے درمیان اس پر رابطے جاری رہے۔ ذرائع کے مطابق اے این پی کی طرف سے تو پیپلز پارٹی کو مکمل حمایت مل گئی تاہم ایم کیو ایم اور (ق) لیگ نے غیر مشروط حمایت سے انکار کر دیا اور اسی وجہ سے بالآخر سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی زیر صدارت جمعہ کو پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہونے والے ہاﺅس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ موخر کر کے اسے پیر کو اتفاق رائے سے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم حکومت کی طرف سے 16 جنوری کو سپریم کورٹ میں این آر او فیصلہ کی سماعت کی وجہ سے بعض حلقوں کو ”پیغام“ دینے کے لئے قرارداد جمعہ کو ہی پیش کرنے کی کوششیں جاری رکھی گئیں۔ ذرائع کے مطابق (ق) لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین اپنے تحفظات دور ہونے کے بعد ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کے چیمبر میں قرارداد کا نیا مسودہ لے کر گئے جس میں صدر اور وزیراعظم پر اعتماد کے الفاظ نکال کر سیاسی قیادت پر اعتماد کے الفاظ ڈالے گئے جبکہ قرارداد کے پیرا نمبر 3 اور چھ جو کہ پہلے بہت سخت تھے ان کو بھی بالکل تبدیل کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے فاروق ستار کے چیمبر میں جانے کے بعد پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ، نوید قمر، راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ پر مشتمل ٹیم بھی وہاں پہنچ گئی اور تبدیل شدہ قرارداد کا متن ان کو پیش کیا جسے فاروق ستار نے لندن ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اور نائن زیرو پر فیکس کرکے وہاں سے منظوری لی۔ اس موقع پر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے موقف کا اعادہ کیا کہ ہم کسی صورت ٹکراﺅ کی پالیسی نہیں چاہتے جس پر (ق) لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں نے بھی اس کی تائید کی۔