”لانگ مارچ“

ہماری سیاسی لغت میں بعض سیاسی اصطلاحیں بے دریغ استعمال ہونے لگی ہیں۔ ان میں ایک اصطلاح ”لانگ مارچ“ بھی ہے۔ گزشتہ صدی میں ہمارے پڑوسی اور دوست ملک چین میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ماوزئے تنگ کی قیادت میں لانگ مارچ کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں ماﺅزے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے چین کو غیر ملکی اور نیشنلسٹ قوتوں سے آزاد کر کے 1950 ءمیں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی۔
ماﺅزے تنگ نے چین کی آزادی کیلئے طویل اور پرآشوب جدوجہد کی۔ اکتوبر 1934 ءمیں ماﺅزے تنگ نے کمیونسٹ آرمی جسے ریڈ آرمی بھی کہا جاتا ہے‘ کی قیادت کرتے ہوئے اپنی مخالف افواج کا گھیرا توڑ کر لانگ مارچ شروع کیا۔ ماﺅزے تنگ کی قیادت میں 85 ہزار سپاہیوں اور کمیونسٹ پارٹی کے پندرہ ہزار کارکنوں نے فوجیوں کا گھیرا توڑ کر ”لانگ مارچ“ کا آغاز کیا۔ لانگ مارچ میں شریک خواتین‘ بچوں اور بزرگوں کو پیچھے چھوڑ کر ماﺅزے تنگ کی قیادت میں سرخ فوج نے پیش رفت جاری رکھی۔ جن عورتوں‘ بچوں اور بزرگوں کو پیچھے چھوڑ گیا تھا ان کی حفاظت کے لئے سرخ فوج کے گوریلوں کو متعین کیا گیا تھا لیکن ان افراد کو مخالف فوج نے قتل کر دیا تھا۔
قریباً ایک لاکھ فوج کی قیادت کرتے ہوئے ماﺅزے تنگ نے ا ستعماری فوج کے خلاف لڑتے ہوئے ہزاروں میل کی مسافت طے کی۔ ماﺅزے تنگ کو اس دوران صحرا اور دریا عبور کرنا پڑے اور ہزاروں ساتھیوں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ ایک لاکھ فوج کےساتھ جو لانگ مارچ ماﺅزے تنگ نے شروع کیا فتح تک اس کے 29 ہزار کے قریب ساتھی کام آ چکے تھے۔ لانگ مارچ کے دوران ماﺅ
کی بیگم بھی شدید زخمی ہوئی تھیں۔ جنہیں علاج کیلئے ماسکو بھیجا گیا۔ ماﺅزے تنگ کی فوج نے جاپان سے بھی چین کا مقبوضہ علاقہ چھڑایا اور عوامی جمہوریہ چین کو آزاد کرایا اس آزادی کے بعد چین ایک عظیم سیاسی اور اقتصادی طاقت بن کر ابھرا۔ ماﺅزے تنگ کا لانگ مارچ‘ آزادی اور خودمختاری کے حصول کے لئے ایک صبر آزما اور پرآشوب جدوجہد کا استعماری بن گیا ہے۔
پاکستان میں اپریل 1977ءمیں پیرپگاڑا نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف کراچی سے راولپنڈی تک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا لیکن اس لانگ مارچ کی نوبت نہ آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ پانچ جولائی 1977 کا مارشل لاءلگانے والے دسویں کور کے اس وقت کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی نے راقم کو ایک انٹرویو میں جو ہفت روزہ حرمت میں شائع ہوا بتایا تھا کہ 1977 میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے فوجی آپریشن کا خفیہ نام آپریشن فیئر پلے رکھا گیا تھا۔ راقم نے جنرل چشتی سے استفسار کیا کہ آپریشن فیئر پلے کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ جب پیرپگاڑا نے لانگ مارچ کی دھمکی دی تھی تو راولپنڈی میں وزیراعظم ہاﺅس کی سکیورٹی فوج کے حوالے کردی گئی تھی۔ وزیراعظم ہاﺅس کی سکیورٹی پر مامور عملے کو ہدایت دی گئی تھی کسی کو بھی وزیراعظم ہاﺅس میں نہ جانے دیا جائے۔ جب مارشل لاءلگانے کا فیصلہ کیاگیا تو اس سیکورٹی عملے کو ہدایت دی گئی کہ کسی کو وزیراعظم ہاﺅس سے باہر نہ جانے دیا جائے ۔یہی ” آپریشن فیئر پلے“ تھا۔
گزشتہ سالوں میں پاکستان کی کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں لانگ مارچ کرنے کی دھمکیاں دے چکی ہیں لیکن وہ ماﺅکے لانگ مارچ کی تاریخ سے شاید آشنا نہیں ۔ قربانی اور جدوجہد کے جس جذبے سے ماﺅاور اس کی سرخ فوج سرشار تھی اس جذبے کے بغیر ”لانگ مارچ“ نہیں ہوا کرتے۔ ذاتی مفادات اور سیاسی اختیارات حاصل کرنے کی خواہش کرنے والے لانگ مارچ نہیں کرسکتے۔ علامہ طاہر القادری نے بھی لاہور سے راولپنڈی تک لانگ مارچ شروع کیا لیکن نہ طاہر القادری ماﺅزے تنگ والے اور نہ ان کے ساتھ لانگ مارچ میں شریک ان کے ساتھی ماﺅزے تنگ کے جاں نثار ساتھیوں کی طرح ہیں۔

ای پیپر دی نیشن