حکومت کہاں ہے ؟

Jan 14, 2013

ڈاکٹر حسین احمدپراچہ


ذرا چشمِ تصور سے محسوس کیجئے کہ آپ کے بچے کو معمولی چوٹ لگ جائے تو آپ کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ چار پانچ روز پہلے میری ایک عزیزہ کی چند ماہ کی بچی رات کو پلنگ سے نیچے گر پڑی۔ ساری رات سارا گھر پریشان رہا۔ ہسپتال میں صبح بچی کی حالت قدرے سنبھلی تو گھر والوں کو کچھ چین آیا مگر جن کے پیاروں کو بغیر کسی قصور کے بم حملوں میں ہلاک کر دیا گیا ہو، 86 جسموں کے چیتھڑے اڑا دئیے گئے ہوں، سینکڑوں کی تعداد میں مرد و خواتین، بچے بوڑھے ہسپتالوں میں پڑے ہوں اُن کے دلوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔ صفر سے دس درجے کم کی شدید ترین سردی میں 86 میتوں کے ساتھ تین روز سے دہائی دے رہے ہیں مگر اُن کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ شیعہ مکتب فکر کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے کے لوگوں کے خلاف محض تین روز پہلے اچانک حملے نہیں ہوئے، یہ کئی سالوں سے جاری رہیں مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اب لوگ، شدتِ غم سے نڈھال لوگ، بوڑھے اور بچے، مرد و زن سراپا غم، سراپا احتجاج، سراپا تصویرِ درد بن کر کوئٹہ کی شاہراہ پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کتنی ظالم ہے۔ گزشتہ چار برس سے ایک غیر سنجیدہ وزیر اعلیٰ کی قیادت میں حکومت بلوچستان ہچکولے کھا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کوئٹہ نہیں ہوتے، یہ وائسرائے اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ دل بہلانے کیلئے لاہور اور کراچی بھی چلے جاتے ہیں، دوبئی وغیرہ کا چکر بھی لگا آتے ہیں انہیں کوئی فکر نہیں کوئی جئے یا مر ے۔ وفاقی وزیر خورشید شاہ اللہ اللہ کر کے کوئٹہ پہنچے انہوں نے مرنے والوں کے لواحقین سے مذاکرات کئے۔ انہوں نے وفاقی وزیر سے کہا کہ ہمیں سلامتی کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے ہمارا مطالبہ ہے کہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے اور گورنر راج نافذ کیا جائے۔ خورشید شاہ نے کہا یہ مطالبات غیر دستوری ہیں۔ مگر انکی زندگیوں کا تحفظ کیسے کیا جائے گا اسکے بارے میں وفاقی وزیر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور افسوس تو یہ کہ وفاقی وزیر کے چہرے پر شرمندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ یہی حالت کراچی کی بھی ہے وہاں بھی خودکشی میں درجنوں انسانوں کو، جیتے جاگتے گوشت پوست کے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اُن کے پیچھے ہزاروں لواحقین رونے دھونے کو رہ جاتے ہیں کوئی اُن کا پُرسان حال نہیں ہوتا، کوئی ان کا محافظ نہیں ہوتا، کوئی اُن کے سر پر دستِ شفقت رکھنے والا نہیں ہوتا۔ خیبر پی کے میں بھی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے کبھی پشاور میں دہشت گردی، کبھی سوات میں دہشت گردی، کبھی پارا چنار میں دہشت گردی، کبھی چارسدہ میں دہشت گردی اور مرکزی حکومت یا صوبائی حکومت خاموش تماشائی بن کر نظارہ کر رہی ہیں ۔پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بھی قابل رشک نہیں۔ یہاں بھی چوری سینہ زوری، ڈاکے اور قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے۔ اغوا برائے تاوان کیلئے ایک نہیں کئی کئی وارداتیں روزانہ ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔
حکومت شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ پرائیویٹ مالکان سے کنٹینرز لیکر اسلام آباد کی سڑکوں کو بند کر دیا ہے۔ ٹرانسپورٹروں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ منہاج القرآن کے ذمہ داران کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کو توڑ دیں۔ منہاج القرآن کے الزامات کے مطابق صوبائی حکومت بھی اس معاملے میں مرکزی حکومت کے شانہ بشانہ لانگ مارچ روکنے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ اگر آپ اور سُننا چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کیا کر رہی ہے تو سُنئے حکومت کو کہیں پر بھی حالات کی سنگینی و سنجیدگی کا کوئی احساس نہیں، وہ بڑے مزاحیہ انداز میں کبھی رحمن ملک کو اور کبھی ریاض ملک کو ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس بھیجتی ہے۔ اس حکومت کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ہر ”مریض“ کیلئے ایک ہی دوا کارگر نہیں ہوتی، ایک ہی طبیب کو ہر جگہ نہیں بھیجا جاتا۔
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری جن امراض کی نشاندہی کر رہے ہیں انہوں نے ہمارے قومی جسد کو بیماریوں کا گھر بنا رکھا ہے۔ کیا قومی و صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہونے والے امیدوار آئین کی دفعہ 62 ، 63 پر پورا اُترتے ہیں۔ کیا وہ دیانت، امانت، صداقت اور شرافت کے مطلوبہ آئینی و دستوری معیار پر پورا اترنا تو دور کی بات اس پر ”آدھا بھی اترتے“ ہیں۔ ہمارے خیال میں ڈاکٹر طاہر القادری کا کوئی بھی مطالبہ غیر آئینی نہیں۔ اُن کے لانگ مارچ اور دھرنے کے بارے میں یقیناً تحفظات موجود ہیں، خطرات موجود ہیں اور خدشات موجود ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وزیراعظم اُن سے ملاقات کریں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملاقات کیوں کریں۔ ایک شخص کی ایک کال پر اگر پانچ سات لاکھ پاکستانی شہری مینار پاکستان کے سائے تلے اکٹھے ہو سکتے ہیں تو پاکستانی شہریوں کا حق ہے کہ اُن کی بات سُنی جائے۔ ذرا نفسیاتی نقطہ نظر سے سے بھی صورتحال کا جائزہ لیجئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری توجہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے جوش خطابت سے جو مدّو جزر پیدا کیا ہے اسکی داد چاہتے ہیں۔ اپنی تجاویز کہ جو بالکل بے ضرر سی ہیں اور ذرا سی یقین دہانی کے ساتھ پوری ہو سکتی ہیں انکی پذیرائی چاہتے ہیں۔
حکومت میں کوئی رجلِ رشید ہوتا‘ کوئی مردِ حکیم ہوتا تو وہ بیگار میں کنٹینر پکڑنے، اسلام آباد کو مقفل کرنے، جلسے میں سانپوں کی آمد اور بین بجانے والے مداریوں کو طلب کرنے اور ڈاکٹر طاہر القادری پر حملے کا خدشہ شہری ہی نہیں حملے کی یقینی خبر دینے کے مزاحیہ پروگرام پیش کرنے اور حکومت کیلئے جگ ہنسائی کا سامان اکٹھا کرنے کے بجائے ڈاکٹر صاحب کو بلا روک ٹوک شوقِ سفر اور جوشِ خطابت پورا کر لینے دیتا ۔ اس سے کوئی بڑی قیامت نہ آ جاتی اور اگر حکومت سے مذاکرات کرنے ہی تھے تو پھر ایک سنجیدہ حکمتِ عملی ہونی چاہئے تھی۔ حکومت رحمن ملک اور ریاض ملک کو الطاف حسین کے پاس بھیجتی ہے یقیناً یہ حضرات الطاف بھائی کے مزاج شناس ہیں وہ اُن کے مطالبات سے آگاہ ہیں مگر ڈاکٹر طاہر القادری کا مزاج الگ اور اُن کے مطالبات الگ ہیں۔
 جمعة المبارک کو الطاف حسین تین گھنٹے تک ٹی وی چینلوں اور سامعین کو یرغمال بنا کر ڈرون حملہ کرتے ہیں اور قائداعظمؒ کو برطانوی شہریت کا حامل اور تاجدارِ برطانیہ کا وفادار ثابت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اعلان کرتے ہیں کہ وہ ہر قیمت پر طاہر القادری کے لانگ مارچ میں شرکت کریں گے مگر اگلے ہی روز ہفتے کے دن وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم طاہر القادری کے لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس بے وفائی اور وعدہ خلافی پر وہ شرمندگی کا کوئی اظہار نہیں کرتے۔ ہماری سیاست میں کمٹمنٹ کوئی کمٹمنٹ نہیں، وعدہ کوئی وعدہ نہیں، وفا کوئی وفا نہیں یہ سب چیزیں مفادات کے ترازو پر جب تولی جاتی ہیں اور دوسرے پلڑے میں جب سیم و زر رکھ دیا جاتا ہے تو پھر وفاداری والا پلڑا بے وقعت ہو جاتا ہے۔
میں حکومت بلکہ پاکستانی حکومتوں سے صرف ایک سوال کرتا ہوں اگر وہ دہشت گردی کے سبب اور دہشت گردی کو تحفظ دینے والے اتحادیوں کی حمایت سے ہاتھ دھونے کے خدشے کے سبب بے بس ہیں تو اُن کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنی حکومتوں کو ناکام قرار دیں اور مستعفی ہوں اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ تمام تر حفاظتی سہولتوں سے دستبردار ہو کر عوام کے درمیان آ جائیں۔ جناب آصف علی زرداری بلاول زرادری بھٹو کے ساتھ، جناب نواز شریف حسن و حسین نواز کے ساتھ، شہباز شریف حمزہ شریف کے ساتھ، اسی طرح وزیراعظم راجہ پرویز اشرف رحمن ملک اور دیگر تمام وزراءاپنے اپنے پروٹوکول اور بلٹ پروف گاڑیوں سے دستبرداری کا اعلان کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر انہیں نہ حکومت کرنے کا حق ہے اور نہ ہی اگلے انتخاب کیلئے ووٹ مانگنے کا حق۔ اسی لئے تو عوام پوچھتے ہیں حکومت کہاں ہے؟

مزیدخبریں