جناب الطاف حسین کے قائداعظمؒ پر حملے

Jan 14, 2013

ڈاکٹر صفد ر محمود


تاریخ کا دامن اپنے اندر ایک واضح سبق سمیٹے ہوئے ہے جسے ہمارے اکثر سیاستدان اور چند دانشور سمجھنے سے گریزاں ہیں۔ وہ سبق یا اصول یہ ہے کہ قومی اتحاد کی علامتوں کو کمزور کرنا یا متنازعہ بنانا کبھی بھی قومی مفاد میں نہیں ہوتا۔ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو کمزور اور متنازعہ بنانے کا نتیجہ صوبائیت اور علاقائیت کی صورت میں نکلا جس کا جن اب بوتل سے نکل کر قومی یکجہتی کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ اگر مشرقی پاکستان سے بے انصافیاں ہوئیں جن کا ہمارے اخبارات میں اکثر چرچا رہتا ہے تو اس میں ملک کی نظریاتی بنیاد کا بھلا کیا قصور تھا؟ یہ کیا دھرا حکومتوں اور سیاستدانوں کا تھا ورنہ نظریاتی بنیاد تو منصفانہ برتا¶ کا تقاضا کرتی تھی۔ ہمارے دو معروف دانشور اکثر پاکستان کی نظریاتی اساس کو مطعون کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان کا فرمان ہے کہ فوجی حکومتوں نے اپنے آپ کو اقتدار میں محفوظ بنانے کے لئے پاکستان کی نظریاتی شناخت سے فائدہ اٹھایا۔ اگر ان کی یہ بات مان بھی لیجئے تو پوچھنے میں حرج نہیں کہ اس میں اس بیچارے نظریے کا کیا قصور جس نے کروڑوں لوگوں کو متحرک کیا اور ان کے دلوں کو گرمایا۔ قصور ان کا ہے جنہوں نے اسے اپنے عزائم کے لئے استعمال کیا۔ ویسے تاریخی تجزیہ ہمارے نظریہ مخالف لکھاریوں کے فرمان کی نفی کرتا ہے۔ پاکستان پر دو طویل فوجی حکومتیں جنرل ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف کی تھیں۔ دونوں اپنی نوعیت اور نظریاتی حوالے سے سیکولر اور غیر نظریاتی تھیں۔ جنرل شیر علی نے نظریاتی نعرے اپنی ذاتی حیثیت میں لگائے‘ یہ یحییٰ حکومت کا ماٹو ہرگز نہیں تھا اور ضیاءالحق نے ماضی سے قطع نظر نفاذ اسلام کو اپنا منشور بنایا اور اسی میں اپنی سیاسی بقاءکا راز پایا۔ اسی ساری کھینچا تانی‘ نعرے بازی اور بحث و تمحیض کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی اتحاد کی نظریاتی علامت کمزور ہوئی اور صوبائیت و علاقائیت نے اسکی جگہ لے کر قوم کو اندرونی طور پر تقسیم کر دیا۔ آج اگر بلوچستان کے حوالے سے ماضی کے بے انصافیوں‘ غلط پالیسیوں اور فوجی اقدامات کا ذکر ہو رہا ہے تو اس میں پاکستان کی نظریاتی بنیاد کا کیا قصور؟ نظریاتی بنیاد تو تمام علاقائی اکائیوں سے منصفانہ سلوک اور برادرانہ رویے کا تقاضا کرتی ہے لیکن ہمارے حکمران ان تقاضوں کو پامال کرتے رہے۔ بے انصافیوں اور غیر جمہوری اقدامات کے مرتکب حکمران ہوئے اور الزام آپ نظریے کو دیتے ہیں۔ یہی وہ صوبائیت ہے جس کے بارے قائداعظم نے 1948ءمیں وارننگ دی تھی اور اس زہر کو قومی جسم سے نکالنے کی نصیحت کی تھی۔ ہم نے وہ نصیحت فراموش کر دی‘ سزا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ملی۔
میرے نزدیک قائداعظم قومی اتحاد کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ وہ بابائے قوم اور پاکستان کے بانی ہیں۔ اس حوالے سے وہ ہمارے ’محسن عظیم ترین“ ہیں۔ پاکستان نہ بنتا تو ان سیاستدانوں کو کون اس طرح سیاسی دکانیں چمکانے دیتا۔ یقین نہیں آتا تو ہندوستان پر نظر ڈالو۔ وہاں آپ سے زیادہ قابل اور اہل مسلمان سیاستدان موجود ہیں لیکن کانگرس کے پٹھو بننے پر مجبور ہیں۔ یہاں آپ تقریر کرتے ہیں تو پچاس ٹی وی چینل آپ کی تقریر سناتے اور آپ کا چہرہ گھنٹوں دکھاتے ہیں اور ہزاروں کا مجمع تابع محمل بنا سر ہلاتا ہے۔ پھر بھی اگر آپ ہندوستان جا کر اعلان کریں کہ اگر میں 1945-46ءکے انتخابات کے دوران موجود ہوتا تو پاکستان کے خلاف ووٹ دیتا تو ہم اسے کیا مراد لیں۔ یہی ناکہ آپ قیام پاکستان کے مخالف ہیں لیکن قدرت کے جبر کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ قدرت کا جبر یہ کہ آپ قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے اس لئے آپ کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ کوئی آپشن نہیں تھی۔ چلئے چھوڑئیے اس موضوع کو‘ یہ ایک لاحاصل بحث ہے۔ لیکن خدا کا شکر ادا کیجئے کہ جس ملک کے قیام کے خلاف آپ جدوجہد کرنا چاہتے تھے اس ملک نے آپکو لیڈر بنا دیا۔ جس ملک کے لیڈر آپ بنے‘ اسکا قیام قائداعظم کا کارنامہ تھا۔ اس لحاظ سے تھوڑا سا احسان قائداعظم کا مان لیجئے۔ یہ الگ بات کہ اس ملک میں ناشکروں اور احسان فراموشوں کی کمی نہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قائداعظم ہمارے قومی اتحاد کی ایک علامت ہیں۔ انہیں متنازہ بنا کر آپ کوئی قومی خدمت سرانجام نہیں دے رہے۔ قائداعظم کے فیصلوں سے اختلاف آپ کا حق ہے لیکن ان کی ذات پر حملے اور انہیں اپنے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا قائداعظم کو متنازعہ بنانا اور بابائے قوم کے احترام کو گھٹانے کی جسارت ہے۔ یقین رکھئے۔ قائداعظم کی ذات پر حملے کرنے والے ان پر بہتان لگانے والے اور انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے پاکستانی قوم کی محبت سے محروم ہو جائیں گے اور کبھی بھی قومی سطح پر ابھرنے کا خواب نہیں دیکھ سکیں گے۔ جس عظیم کردار اور آئینی شخصیت نے انگریزوں اور کانگرس جیسی قوتوں کو شکست دے دی‘ اس شخصیت سے آج بھی ٹکرانے والے اپنا ہی نقصان کریں گے۔ رہے ہمارے محترم الطاف حسین تو ان کا قائداعظم پر یہ پہلا ڈرن حملہ نہیں‘ ان کا قائداعظم پر تیسرا ڈرون حملہ ہے۔ پہلا حملہ وہ تھا جس میں انہوں نے قائداعظم کو سیکولر قرار دیا۔ میں اس کا جواب دے چکا۔ سیکولر کے جو معانی مرضی ہے نکالئے بات لادینیت پر ختم ہوتی ہے۔ قائداعظم کا تصور پاکستان بہرحال اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست کا تصور تھا اور اسلامی ریاست سیکولر ریاست نہیں ہو سکتی لیکن سیکولر ازم کی آڑ میں دانشور جن روشن اصولوں کا ذکر کرتے ہیں وہ بذات خود اسلامی طرز حکومت کا حصہ ہیں۔ ان کا دوسرا حملہ قائداعظم کے عقیدے کے حوالے سے تھا جس کا جواب دیا جا چکا۔ ویسے قائداعظم کے عقیدے کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کسی بحث کا جواز باقی نہیں رہتا۔ قائداعظم ایک پکے اور سچے مسلمان تھے اور بس....
جناب الطاف حسین کا قائداعظم پر چند روز قبل تیسرا حملہ اکثر پاکستانیوں کے دلوں پر چرکے لگا گیا۔ انہوں نے اپنے ڈرون حملے کا اعلان کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس بار ان کا نشانہ بابائے قوم ہو گا۔ اس حملے کا سبب دوہری شہریت کا قانون ہے جس کا جواز فراہم کرنے کے لئے ایم کیو ایم کے قائد نے قائداعظم کو تختہ مشق بنایا اور قائداعظم پر برطانوی بادشاہ سے وفاداری کا الزام لگایا جبکہ قائداعظم نے اپنی زندگی کے بہترین سال برطانوی غلامی کے خلاف جدوجہد میں گزار دئیے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس دور کا آج کے دور سے موازنہ ہی غلط اور غیر منطقی ہے کیونکہ وہ دور غلامی تھا اور ہم ایک سخت استعماری قوم کے غلام تھے جبکہ آج کا دور آزادی اور برابری کا دور ہے۔ قائداعظم نے آزادی فوجی قوت سے نہیں بلکہ آئینی قانونی جدوجہد اور ذہنی قوت سے حاصل کی تھی۔ آئینی اور قانونی آزادی قوانین کے ذریعے ملتی ہے۔ (جاری)

مزیدخبریں