پیر،یکم ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘14 جنوری2013 ئ


 خورشید شاہ کہانیاں نہ سنائیں ایف سی ٹارگٹڈ آپریشن کرے:گورنر بلوچستان مگسی
 ملک میں کربلا برپا ہے ہر راستے پر موت چڑیلوں کی طرح پیچھا کر رہی ہے صوبے کا آئینی سربراہ ماتم کنا ںہے کہ میرے صوبے میں موت کا رقص جاری ہے اسے بند کیاجائے لیکن مفاہمتی دستر خوان پر بیٹھے یار لوگ ٹَس سے مَس نہیں ہورہے۔ چڑیل بھی چار گھر چھوڑ کر ڈیرے ڈالتی ہے لیکن ہم کیسے لوگ ہیں جو اپنے ہی پاﺅں پر کلہاڑی مار کر اپنے آپکو لولا لنگڑا کرلیتے ہیں،آج پورے ملک میں شامِ غریباں برپا ہے اداسی بال و پر کھول کر ہر درودیوار پر بیٹھ چکی ہے،اب تو نوبت باایں جا رسید کہ قبروں پر جلانے کیلئے چراغ بھی کم پڑ گئے ہیں۔86جنازے کوئٹہ کی سڑکوں پر پڑے ہیں جبکہ جگت باز لوگ لندن میں سیر سپاٹے کر رہے ہیں۔خوش فہمیوں اور خواہشات میں مبتلا حکمران ملک کو مسائل کی دلدل میں پھنسا رہے ہیں۔ چاپلوسی کی پالیسیاں آخر کب تک چلیں گی،حکمران ہوش کے ناخن لیں اور تھوک سے پکوڑے تلنا چھوڑ دیں،قوم کو روٹی،کپڑا اور مکان نہیں دے سکتے تو خدا کیلئے انہیں سکون تو دیں،انہیں امن کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت تو دیں۔مجلس وحدت مسلمین کے پورے پاکستان میں احتجاج جاری ہیں لیکن صدر محترم ساحل سمندر کے قریب جا بیٹھے۔جناب نجومیوں کے پیچھے لگے تو پھر ” حکمرانی “ ہوگی ایسے حکومتیں نہیں چلتیں،یتیموں کی آہیں اور سسکیاں پانی کو جلا دیتی ہیں اس لئے بددعائیں نہیں دعائیں لو۔ 48گھنٹے سے جنازے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں ،مظلوموں کی آہوں کو عرش بریں تک مت پہنچنے دیں اس میںسب کی بہتر ی ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
 ارفع کریم کی پہلی برسی آج منائی جائیگی
 پھول کو مرجھائے ایک سال ہوگیا لیکن اسکی خوشبو سے زمانہ اب بھی معطر ہے۔ارفع نے عشروں کا سفر دنوںمیں طے کیا وہ ایک طلسمانی گڑیا تھی جو ہم کو شعلہ مستعجل دکھا کر رخصت ہوگئی یہ گلِ نو شگفتہ اپنی مہک چھوڑ گیا اور بکھر کر اَمر ہوگیا۔اس کے خواب چکنا چور ہوئے، دل کی حسرتیں دل میں ہی رہ گئیں۔ارفع 26 روز موت سے لڑتی رہی بالآخر اس معصومہ نے اپنے حکمرانوں کی بے حسی دیکھ کر موت کو گلے لگایا۔یہ حقیقت ہے کہ بڑے آدمی انعام کے طورپر دئیے اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے ہیں۔بڑے لوگ اس قوم کو عطا کیے جاتے ہیں جو حق دار ہوتی ہے لیکن جس قوم میں ذہین اور ایماندار لوگوں کو رسوا کیاجائے اس قوم میں ناشکری کا نتیجہ بے ہنری کی صورت میں سامنے آتا ہے ہم کتنے ظالم لوگ ہیں جنہوں نے کم ظرفوں کو اعلیٰ عہدوں پر بٹھادیا، حقدار اور با صلاحیت لوگوں کو پس پشت ڈال دیا اس ناشکری پر ہم قحط الرجال کا شکار ہوگئے اور کرگس قوم کے رہنما بن گئے۔
 قومی ہیرے نے مٹی کی چادر اوڑھی تو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ارفع کے مشن کو پروان چڑھانے کا اعلان کیا لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود ارفع انفارمیشن ٹیکنالوجی پارک ادھورا پڑا ہے آج تاریخ کا کلیجہ تو ارفع کی یاد سے لبریز ہے وہاں بہت سارے وعدے لکھے پڑھے ہیں جو ایفا ہونے کے انتظار میں ہیں ۔ارفع آئی ٹی یونیورسٹی نہ جانے کب بنے گی،ارفع کریم ہیرا تھی جس کی ہم نے قدر نہیں کی تو اللہ تعالیٰ نے ہم سے واپس لے لی....ع
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
 حکمرانوں نے جو وعدے ارفع کے جنازے پر کئے تھے انہیں پورا کریں تاکہ اس پھول کے خواب پورے ہوجائیں....
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
٭....٭....٭....٭....٭....٭
 امارات میں ہوں،کسی نے ٹریس کرلیا ہے تو گرفتار بھی کرلے۔ توقیر صادق
 کھوجیوں اور غوطہ زنوں کیلئے یہ کھلا چیلنج ہے اب کسی کی ٹانگوں میں پانی ہے تو اس چیلنج کو قبول کرلے ،امارات تو بہت دور کی بات ہے آدمی لاہور کسی جھگی میں بیٹھ جائے تو ”کراماً کاتبین“ کو خبر تک نہیں ہوتی(مذکورہ لفظ فرشتوں کیلئے نہیں بلکہ اصطلاح کے طورپر استعمال کیا گیا ہے) سیکورٹی ایجنسیاں تو بڑے دعوے کرتی ہیں کہ ہم سمند ر کی تہوں سے گمشدہ سیپیاں تک تلاش کرلیتے ہیں لیکن توقیر صادق سوئی تو نہیں جو رش میں گر گئی ہے وہ تو ماشاءاللہ 5چھ فٹ کا انسان ہے۔ایجنسیاں اگر ایمانداری سے کام کریں تو پکڑ سکتی ہیں لیکن آجکل وہ ملک کی نہیں بلکہ کسی فرد کی نوکری کر رہی ہیں جس کے باعث انکے پاﺅں میں زنجیریں پڑی ہوئی ہیں۔
 توقیر اگر اپنے موقف میں واقعی صادق ہیں اور انہوں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی تو سپریم کورٹ میں آکر پیش ہوجائیں کیونکہ جس طرح آپ ملک سے رفوچکر ہوئے ہیں ایسے تو چور ہی بھاگتے ہیں آپ نام کے صادق تو ہیں اگر کردار کے بھی صادق ہیں تو پھر شیر بن کر میدان میں آئیں،ورنہ تو ہر کوئی چور چور کہے گا۔52ارب اور52روپے میں تو ملنے اور بچھڑنے سے بھی زیادہ فاصلہ ہے اس لئے دال میں کچھ کالا کالا تو ضرور لگتا ہے،کہیں ایسا نہ ہوکہ پوری دال ہی کالی ہو،ایک چور کا لطیفہ بڑا مشہور ہے کہ پولیس نے اس سے چوری منوانے کیلئے خوب جوتا استعمال کیا لیکن اس کے چور ہونے کے اس کی چوری اگلوائی نہ جاسکی۔چور نے پولیس سے کہا کہ مجھے کھانا کھلائیں پولیس نے کھانا پیش کیا، کھانا کھانے کے بعد چور نے پولیس سے کہا جو میں نے ابھی کھانا کھایا ہے آپ یہ مجھے منوا دو کہ میں نے کھایا ہے میں باقی چوریاں خودبخود مان جاﺅنگا، تو جناب اگر تو آپ نے پکے پاﺅں چوری کی ہے تو پھر ہم آپ سے کیسے منوا سکتے ہیں۔آپ خود ہی مان جائیں تو احسا ن ہوگا۔
٭....٭....٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن