بلوچستان حکومت برطرف ‘ گورنر راج نافذ کر دیا : وزیراعظم

کوئٹہ (نوائے وقت رپورٹ) بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ کر دیا گیا۔ اس کا اعلان وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے سانحہ کوئٹہ کے لواحقین کے دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا پورے بلوچستان میں آئین کا آرٹیکل 234 نافذ کر دیا ہے۔ گورنر صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت کو برطرف کرکے 2 ماہ کیلئے گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ ایف سی کو پولیس کے تمام اختیارات دیدئیے گئے ہیں۔ کمانڈر ایف سی، کور کمانڈر کوئٹہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ گورنر کو وفاقی حکومت مکمل مدد فراہم کرے گی۔ سانحے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ زخمیوں کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائےگی اور ان کا علاج سرکاری طور پر کیا جائے گا۔ آپ سے اپیل کرتے ہیں میتوں کی تدفین کر دی جائے۔ متاثرین کو 31 جنوری سے قبل معاوضہ ادا کردیا جائے گا۔ گورنر بلوچستان اور ایف سی کمانڈر کو مسائل سے آگاہ کریں فوری ایکشن ہو گا۔ ایف سی کو گرفتاری اور تفتیش کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ حکومت فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے کسی بھی وقت طلب کر سکتی ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف مقدمات ختم کئے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا ہزارہ برادری کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں اپنی طرف سے اور صدر زرداری، پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں قبول کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال پر صوبائی اور قومی رہنماﺅں سے رابطے کئے ہیں پوری قوم دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے جس میں صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کو ملکر شکست دینا ہو گی۔ قبل ازیں وزیراعظم سانحہ کوئٹہ کے لواحقین سے ملاقات کیلئے علمدار روڈ گئے اور دھماکوں میں جاں بحق افراد کیلئے فاتحہ خوانی کی اور جاں بحق افراد کے درجات کی بلندی اور لواحقین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم کے ہمراہ گورنر ذوالفقار مگسی اور وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ بھی تھے۔ قبل ازیں اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ہزارہ کمیونٹی کے رہنما قیوم چنگیزی نے کہا 5 سال میں ہزارہ کمیونٹی کے گیارہ سو افراد قتل ہوئے۔ ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم و ستم کی بنیادی وجہ صوبائی حکومت ہے۔ دو دہائیوں سے ہمارے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا ہزارہ برادری کے افراد ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں، کسی بھی سانحے کے بعد کوئی بھی وزیر ہمارے پاس نہیں آیا۔ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف کئی واقعات وزیراعلیٰ کے آبائی علاقے میں ہوئے۔ قتل ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے 6 لاکھ افراد رہائش پذیر تھے جن میں سے ایک لاکھ ہجرت کر گئے ہیں۔ اسلم رئیسانی کو اتنی توفیق نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ تعزیت کرتے جبکہ زائرین کو ان کے گھر کے باہر جلایا گیا۔ ہمارا مطالبہ ہے صوبے کی ذمہ داری فوج کے حوالے کی جائے۔ پاک فوج کے ذریعے ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف قتل کے واقعات وزیراعلیٰ کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔ صوبائی وزراءٹارگٹ کلرز کی سرپرستی کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے اسمبلی فلور پر کہا انہیں پتہ ہے ٹارگٹ کلنگ میں وزراءملوث ہیں مطالبہ کرتے ہیں ہزارہ کمیونٹی کے خلاف مقدمات ختم کئے جائیں۔ سانحہ علمدار روڈ اور دیگر سانحات کے لواحقین کیلئے مالی امداد کی جائے۔ میڈیا کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہزارہ برادری پر حملے اور شہداءکی ایف آئی آر درج کی جائے۔ قبل ازیں وزیراعظم نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انہیں بلوچستان میں پیدا ہونیوالی صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات پر اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم ہاﺅس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف، مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین، ڈپٹی وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی ، متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی، جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن اور بی این پی کے سربراہ میر اسرار اللہ زہری سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انہیں کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد بلوچستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پرتفصیل سے بات چیت کی اور انھیں حالات سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات پر اعتماد میں لیا۔ اس حوالے سے ترجمان اے این پی زاہد خان کا کہنا ہے وزیراعظم نے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ پر اے این پی کو اعتماد میں لے لیا ہے۔ مزید برآں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو ٹیلی فون کرکے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان حکومت کو فوری طور پر برطرف کرکے گورنر راج نافذ کیا جائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق الطاف حسین نے بلوچستان اور خصوصاً کوئٹہ سانحہ پر تشویش کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا بلوچستان میں فوری طور پر گورنر راج نافذ کیا جائے۔ قبل ازیں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ہنگامی دورے پر کوئٹہ پہنچے اور انہوں نے گورنر ہاﺅس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی اور گورنر بلوچستان سے ملاقات کی جس میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم کو کوئٹہ کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں کوئٹہ میں ہونےوالے بم دھماکوں میں انسانی جانوں کے ضیاع، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے معاملات پر بھی غور کیا گیا اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں امن وامان صورتحال کو بہتر کیا جائےگا۔ وزیراعظم سے پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر میر صادق عمرانی نے ملاقات کی۔ صادق عمرانی نے میڈیا کو بتایا وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ صوبائی حکومت برطرف کی جائے۔آئی این پی کے مطابق وزیراعظم نے وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک سے آرٹیکل 245 کے تحت صوبے میں گورنر راج لگانے یا فوج کو طلب کئے جانے کے آپشنز پر رائے بھی طلب لی۔ گورنر ہاو¿س میں اعلیٰ سطح اجلاس میں صوبائی کابینہ سمیت پولیس اور ایف سی کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے وزیر اعلی بلوچستان کی وطن واپسی میں تاخیر پر برہمی کا اظہارکیا جبکہ انہوں نے بلوچستان کے سینئر وزیر مولانا واسع کو بھی کراچی سے فوری طور پر کوئٹہ پہنچے کی ہدایت کی۔قبل ازیں ہزارہ کمیونٹی کے رہنماﺅں نے وزیراعظم سے اصرار کیا کہ گورنر راج کے نفاذ کے ساتھ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ دھرنا کے موقع پر جب وزیراعظم گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کر رہے تھے تو علامہ راجہ ناصر عباس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیوں نہیں کیا جا رہا جس پر وزیراعظم نے کہا کہ حکومت فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے کسی بھی وقت طلب کر سکتی ہے حتیٰ کہ شہر کے حالات کے مطابق ڈی سی بھی فوج کو بلا سکتا ہے۔ بلوچستان میں گورنر راج دو ماہ کیلئے ہو گا اور گورنر راج کے نفاذ کی منظوری دس دن میں پارلیمنٹ سے لینا ہو گی۔ نجی ٹی وی کے مطابق آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت صوبے میں گورنر راج کا نفاذ دو ماہ کیلئے ہو گا۔ گورنر صوبے کے حالات کی سمری صدر کو بھیجیں گے جس کی رپورٹ پر ابتدائی طور پر دس روز کیلئے گورنر راج کا نفاذ ہو گا۔ گورنر راج کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے دس دن میں منظوری لینا ضروری ہو گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق 60 گھنٹے بعد ہزارہ برادری نے دھرنا ختم کر دیا۔ کمیونٹی کے رہنما سعادت علی ہزارہ نے بتایا گورنر راج کے حکم نامے پر وزیراعظم نے دستخط کر دیئے ہیں۔ ہمارے مطالبات مان لئے گئے، اب کوئی مطالبہ نہیں رہا۔ شہداءکی تدفین گورنر راج کا نوٹیفکیشن جاری کرنے تک نہیں ہو گی، وزیراعظم کے شکرگزار ہیں چوروں سے ہماری جان چھڑا دی۔
کوئٹہ (بیورو رپورٹ) کوئٹہ میں ہونےوالے خود کش اور کار بم دھماکوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونےوالے 86 افراد کی میتیں تیسرے روز بھی نہیں دفنائی جاسکیں۔ لواحقین اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے علمدار روڈ پر مسلسل تیسرے روز بھی دھرنا جاری رکھا۔ شدید سردی کے باوجود لواحقین اور دیگر لوگ مسلسل اپنے مقام پر موجود رہے اور حکومت کےخلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا جب تک کوئٹہ کو فوج کے حوالے نہیں کیا جاتا اور صوبائی حکومت کے خاتمے کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آپریشن نہیں ہوتا اس وقت تک دھرنا جاری رہے گا اور میتوں کو بھی نہیں دفنایا جائےگا۔ مجلس وحدت مسلمین کے علاوہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے زیر اہتمام بھوک ہڑتالی کیمپ کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا۔ پارٹی چیئرمین عبدالخالق ہزارہ اور دیگر رہنماﺅںنے دوسرے روز بھی بھوک ہڑتال میں حصہ لیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ سے ٹیلیفون پر سانحہ کوئٹہ پر ہزارہ قوم سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...