شیخ الاسلام کا لانگ مارچ

”شیخ الاسلام“ علامہ طاہر القادری کی جانب سے 14 جنوری کو اسلام آباد ملین مارچ نے ملکی اور بین الاقوامی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے اور دنیا بھر کی توجہ اس ملین مارچ کی طرف مبذول ہوگئی ہے۔ اس ملین مارچ کے دعوے اور حقیقت کی جانب آنے سے قبل ایک نظر شیخ الاسلام کے 23 دسمبر 2012ءسے اب تک کے اعلانات پر ہوجائے۔10 جنوری تک انتخابی اصلاحات وگرنہ اسلام آباد کی طرف ملین مارچ ہوا۔ 14 جنوری کو اسلام آباد میں عوامی پارلیمنٹ لگے گی۔ انتخابی اصلاحات کیلئے لانگ مارچ کا فیصلہ حتمی ہے۔ نگران وزیراعظم وہی بنے گا جس کا اعلان 14 جنوری کو اسلام آباد میں کریں گے۔الطاف کی مارچ میں شرکت کی دعوت، نگران سیٹ اپ میں ذمہ داری ملی تو انکار نہیں کرونگا۔ قانون کی حکمرانی کیلئے جان دینے کو تیار ہوں، نظربندی کا فیصلہ کیا گیا تو لاکھوں افراد پر میرا کنٹرول ختم ہوجائیگا۔ جمہوری حق چھینا گیا تو چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، لانگ مارچ روکا گیا تو بیس لاکھ افراد اسلام آباد اور بیس لاکھ لاہور جائینگے۔ پہلے انقلاب کی نیت تھی، اب شہادت کیلئے اسلام آباد جائینگے۔ لاہور سے تین لاکھ افراد لیکر اسلام آباد مارچ کریں گے۔ صدر اور وزیراعظم سے ملنے کو تیار ہوں، لانگ مارچ سے قبل نگرانی حکومت بنی تو اٹھا کر پھینک دینگے۔ حالات جیسے بھی ہوں لانگ مارچ ضرور ہوگا، وصیت کرتا ہوں۔ قتل ہوجاﺅں تو پرامن رہیں۔علامہ صاحب کی چالیس ہزار بسیں بک کرنے اور اس پر ایک ارب کے خرچ کی اطلاعات ہیں۔ صرف پنجاب سے 35 ہزار بسیں اور ویگنیں کرائے پر لینے کے دعوے بھی سامنے آئے، فی گاڑی پر بیس ہزار روپے کرایہ خرچ ہوگا۔ اسلام آباد میں داخل ہونے پر ٹائلٹ کی سہولت بلیو ایریا کے تجارتی مراکز میں درجنوں پلازے پورے کرینگے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے میڈیا ترجمان کے مطابق انکے پاس فنانس کی کمی نہیں۔ لوگوں نے لانگ مارچ کو فنڈز فراہم کرنے کیلئے اپنی موٹر سائیکلیں، ٹی وی سیٹ، کمپیوٹر، جیولری اور دیگر قیمتیں اشیاءتک فروخت کردی ہیں۔قوم کو انکے یکلخت، اتنے سالوں کے بعد وطن واپس آکر اچانک الیکشن ملتوی کرانے اور لانگ مارچ کرنے کے اعلانات پر حیرانی ضرور ہورہی ہے لیکن اگر یہ سب حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ دعوﺅں اور وعدوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس میں اچھنبے یا حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ علامہ طاہر القادری نے یہی ایجنڈا 30 مئی 1999ءکو نوائے وقت سنڈے میگزین کو خصوصی انٹرویو میں بھی دیا تھا۔ انکا فرمانا تھا کہ فی الحال الیکشن کرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مجھے عبوری قومی حکومت کا وزیراعظم بنا دیا جائے تو تین ماہ میں نادہندگان سے وصولی کا کام مکمل کرلونگا۔ اس انٹرویو میں وہ بہت دور کی کوڑی لائے تھے کہ وہ کالا باغ ڈیم بنائے بغیر پانی و بجلی کی کمی دور کردیں گے۔ کالا باغ ڈیم مفت میں جھگڑا بن گیا ہے۔ اس جھگڑے کو ہاتھ لگائے بغیر بجلی اور پانی کی کمی دور ہوجائیگی۔تمام مقتدر قوتوں سے حصولِ حکمرانی کیلئے رابطے اور اپیلیں کرنا حضرت شیخ الاسلام کا شروع سے شیوہ رہا ہے۔ انہوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل کو مضبوط، فعال اور بامقصد بنانے کیلئے اپنی خدمات بلامعاوضہ پیش کرنے کی پیشکش تھی اور یہ فرمایا تھا کہ حضرت شیخ الاسلام یہ سب کچھ اطمینانِ قلب اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کررہے ہیں۔ انہوں نے 1999ءمیں سپریم کورٹ سے حکومت کو برطرف کرکے چلتا کرکے نگران حکومت، احتساب اور انتخاب کے قومی پیکیج بنانے کا فیصلہ صادر کرنے کی عاجزانہ درخواست کی تھی۔1998ءمیں داتا دربار سے مسجد شہداءتک نکالی گئی ریلی میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ چند دن میں نوازشریف حکومت کا تختہ الٹ دیں گے اور کفن باندھ کر اسلام آباد مارچ کرینگے۔ شدید گرمی میں نکالی گئی ریلی میں دو کارکن انکی گاڑی میں کھڑے ہو کر انہیں پنکھا جھلتے رہے اور چھتری لیکر انہیں گرمی سے بچاتے رہے۔ 1999ءمیں انہوں نے ”گو نوازشریف مارچ“ کا اعلان بھی کیا تھا۔ 11.6.99 کو شیخ الاسلام نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں نوازشریف سے لڑنے کی پوزیشن میں آگیا ہوں اور انہیں ہٹانے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ پیپلز پارٹی سے اتحاد ہوسکتا ہے۔ قبل ازیں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو اپنی بہن کہنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ 1999ءمیں بھی انہوں نے ایک سانس میں ہی یہ فرمایا تھا کہ تین سال کیلئے انہیں نگران وزیراعظم بنا دیا جائے تو وہ تمام مسائل حل کردینگے اور اقتدار میں آتے ہی وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ملک سے نکال باہر کریں گے۔ بس شرط یہی ہے کہ انہیں عبوری قومی حکومت کا سربراہ بنایا جائے۔حضرت شیخ الاسلام نے نوازشریف کیخلاف کارروائی کے موقع پر جنرل پرویز مشرف سے بھی درخواست کی تھی کہ ابھی بہت تھوڑی گردنیں مروڑی ہیں جبکہ پرویز مشرف کو ہزاروں گردنیں مروڑنی چاہئیں تو وہ انکا ساتھ دینگے۔ حضرت شیخ الاسلام کا المیہ یہی ہے کہ وہ اگر خود کو صرف دین اور اسکی خدمت تک محدود رکھتے تو یقیناً عالم اسلام کی ایک معتبر اور سرکردہ شخصیت بن کر ابھرتے اور تمام ممالک میں انکا اسلامی حوالہ ایک واجب الاحترام ہستی کے طور پر مانا جاتا اور یہ سب کچھ اپنی خداداد صلاحیتوں، علم و ادب اور بطور اچھے مقرر کے انجام دے سکتے تھے۔ کئی لوگ تو انہیں مستقبل کے مجتہد کے روپ میں بھی دیکھ رہے تھے لیکن انسان تمام تر بشری کمزوریوں کا مجموعہ ہے اور بعض افراد خودنمائی اور شہرت کیلئے بہت کچھ کر گزرتے ہیں اور چاہے انہیں اسکی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے اور اس معاملے میں حضرت شیخ الاسلام کسی سے پیچھے نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ علامہ طاہر القادری نے پاکستانی سیاست اور مذہب میں پہلی مرتبہ ڈرامے کو متعارف کرایا تو بیجا نہ ہوگا۔ سیاست میں تو ڈرامائی عنصر پاکستانی عوام دیکھتے ہی رہے ہیں لیکن مذہب میں اسے شامل کرنا یقیناً حضرت شیخ الاسلام کا ہی کارنامہ ہے۔ صدر ضیاءالحق کے دور حکومت میں جب میاں نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے، ڈاکٹر خالد علوی مرحوم پی ٹی وی پر مذہبی پروگرام کرتے تھے۔ وہ ٹیچنگ سٹاف کے صدر بھی تھے، پنجاب یونیورسٹی میں تین ماہ تک ہڑتال چلی، انہیں نہ صرف ملازمت سے فارغ بلکہ پی ٹی وی پر مذہبی پروگرام سے بھی چلتا کیا گیا۔ میاں صاحب کی سفارش پر علامہ طاہر القادری کو وہ پروگرام مل گیا۔ ابھی پہلا پروگرام ریکارڈ ہوا تھا اور اس نے مقررہ تاریخ پر نشر ہونا تھا اور اس پروگرام کے حوالے سے حضرت شیخ اسلام کی پبلسٹی مہم زوروں پر تھی کہ حسن اتفاق سے اچانک کوئی اہم ایونٹ کے سبب مذکورہ مذہبی پروگرام اس روز نہ چل سکا لیکن پروڈیوسر اور دیگرعملہ یہ جان کر حیرت زدہ رہ گیا کہ ایک تھیلے بھر تعریفی اور پذیرائی کے خطوط ملک کے طول و عرض سے موصول ہوئے کہ قائد انقلاب کا فکر انگیز خطاب، انکی روحانی اور ذہنی تربیت کا باعث بن رہا ہے اور اسطرح کے پروگرام جاری و ساری رہنے چاہئیں۔ یہ بات مجھے پی ٹی وی کے دوست پروڈیوسرز نے بتائی تھی اور ان دنوں پی آر او عثمان جلوانہ مرحوم ہوا کرتے۔ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے ایک محترم استاد گرامی کو بھی اس سارے واقعہ کا بخوبی علم ہے۔ انہی دنوں جبکہ ابھی موٹر وے نہیں بنی تھی، اسلام آباد، مری کیلئے براستہ سرگودھا، خوشاب جانیوالوں کو راستے کے تمام سنگلاخ پہاڑوں، کلرکہار، بیل پدھراڑ ہر جگہ بلندی پر قائد انقلاب کے تعارفی پیغامات چونے یا پینٹ کے ذریعے کئی کئی میل دور سے نمایاں نظر آتے جو سالہاسال تک ان بلندیوں پر روزانہ آنے جانیوالوں کو اسی طرح دکھائی دیتے رہے۔ پھر اچانک ہی حضرت شیخ الاسلام نے ڈرامائی انداز میں یہ دعویٰ بھی فرمانا شروع کردیا کہ انکی رسول اللہ سے ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں اور وہ براہ راست ان سے ہدایات لیکر اپنا پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ پھر پیارے نبی کی عمر مبارک 63 سال کے حوالے سے اپنی عمر کا بھی بتانا شروع کردیا۔ انکی ویڈیوز اور تقاریر پر بہت لے دے اور احتجاج بھی ہوتا رہا۔ انکا کہنا تھا کہ انکے دستخط شدہ نوٹ لوگ تبرکاً لاکھوں روپے میں خریدتے ہیں۔ منہاج القرآن کے تربیتی کیمپ لندن میں انکی گھڑی پونے سات لاکھ روپے میں نیلام ہوئی جبکہ ٹوپی کی نیلامی روکدی گئی۔ شیخ الاسلام نے سوا تین لاکھ بیروزگاروں کی رجسٹریشن بھی کی تھی اور 86 لاکھ بیروزگاروں کو نوکریاں دینے کا ڈرامائی اعلان بھی کیا تھا۔سیدنا طاہر علاﺅ الدین گیلانی البغدادی معروف روحانی شخصیت کا 1991ءمیں جرمنی میں انتقال ہوا تو انہیں تحریک منہاج الرقآن کے مرکز ٹاﺅن شپ (بغداد ٹاﺅن) میں سپردخاک کیا گیا جبکہ حضرت شیخ الاسلام کا فرمان بھی سامنے آیا کہ چونکہ سیدنا طاہر علاﺅ الدین کا تعلق حضرت پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر گیلانی کے خانوادے سے ہے اسلئے اہلسنت حضرات گیارہویں کے پیر کی نذر نیاز انکے آستانہ بغداد ٹاﺅن میں جمع کرائیں۔ انہیں یہ نیاز کہیں اور دینے کی ضرورت نہیں۔ شیخ الاسلام مصطفوی انقلاب کا نعرہ بھی لگاتے نہیں تھکتے اور پھر فرماتے ہیں کہ سب لوگ تیار ہوجائیں، میں ماﺅزے تنگ کی طرح کال دینے والا ہوں۔ حرام خور لیڈروں کی ہڈیاں چکنا چور ہوجائیں گی۔ یہ خطاب انہوں نے لیہ میں کرسچن کمیونٹی کی تقریب میں کیا تھا۔شیخ الاسلام نے 10.7.99 کو ہزاروں پاکستانیوں کی قیادت میں نیویارک میں کشمیریوں کی حمایت میں مظاہرہ کیا تھا اور میاں نوازشریف کو کشمیریوں کا راجہ ہری سنگھ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے راجہ سے زیادہ میری سنگھ کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ 6 جنوری 2013ءکو شائع شدہ اعلان کے مطابق شیخ الاسلام نے فرمایا کہ اسلام جہاد کشمیر میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا۔انکی دہری شخصیت اور تضاد بیانی نے انکی مذہبی ساکھ کو متاثر کیا۔ موچی دروازے کے جلسہ میں انہوں نے قرآن پاک پر حلف اٹھا کر اعلان کیا تھا کہ وہ سیاست پر لعنت بھیجتے ہیں۔ تمام زندگی صرف دین کی تبلیغ کرینگے، سیاست اور اقتدار پر لعنت بھیجتے ہیں۔ پھر الیکشن لڑنے سے قبل ایک لشکر لیکر مدینہ منورہ اور بغداد شریف بھی گئے تھے اور واپسی پر اپنے معتقدین کو یہ خوشخبری بھی سنائی تھی کہ اللہ کے رسول نے انہیں ذاتی طور پر فتح کی بشارت دی ہے۔ گھر پر فائرنگ اور بکھرے خون کے بعد عدالت نے جو کچھ انکے بارے میں ریمارکس دئیے وہ سب کو معلوم ہیں۔داتا دربار کی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جب میری حکومت آئیگی تو قرضہ اتارنے کیلئے لوگ تن کی قمیضیں تک اتار دیں گے اور میرے ایک اشارے پر یہ لوگ ابھی قمیضیں اتار سکتے ہیں، اور پھر نظارہ بھی دیکھو اور لوگوں نے گلے سے قمیضیں اتار کر ہوا میں اچھالنا شروع کردیں۔1998ءمیں اپنے گھر پر سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ”شیخ الاسلام“ نے انکشاف کیا تھا کہ میاں نوازشریف انکے اس قدر معتقد تھے کہ حصولِ برکت کیلئے انکے استعمال شدہ کپڑے اور جرابیں اپنے گھر لیجاتے تھے اور ایک بار میاں نوازشریف نے ان سے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ اگر آپ امام مہدی ہیں تو مجھے اس راز سے ضرور آگاہ کریں۔ ”شیخ الاسلام“ کے اس دعوے کا جواب قارئین کو شریف خاندان کی اس خوش عقیدگی میں مل سکتا ہے جب اس خاندان نے ”شیخ الاسلام“ کو کاندھے پر اٹھا کر غارِ حرا کی زیارت کرائی تھی۔علامہ طاہر القادری کی تحریک خوش عقیدہ لوگوں کی پیدا کردہ تحریک ہے جو انکی دہری شخصیت کو اعلیٰ، مدبر اور آسمانی وجود بناکر پرستش کرتے ہیں۔ اسے ہم اپنے ہاں تصوف کے نام پر مریضانہ ذہن پیدا کرنے کے کاروبار کا تسلسل بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اس خوش عقیدگی اور شخصیت پرستی کو بنیاد بناکر وہ کس کا لکھا ہوا سکرپٹ پڑھ رہے ہیں، یہ باشعور عوام جو کسی خوش عقیدگی میں مبتلا نہیں، بخوبی جانتے ہیں اور انہیں بھی علم ہے کہ ماضی میں سیاسی میدان سے پسپائی کے بعد اچانک مختصر عرصہ میں یہ ”شاندار کامیابیاں“ محض انکی فہم و فراست، تدبر، حکمت اور محنت شاقہ کا نتیجہ نہیں ہیں۔ علامہ صاحب یہ بھی خوب رہی کہ دکھ سہے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔ شیخ الاسلام چاہتے ہیں کہ غریب عوام اس شدید سردی میں یخ بستہ پانی سے وضو کرکے سر پر کفن باندھ کر انکی گرماگرم پرتعیش گاڑی کے پیچھے دوڑیں۔ ہمارے غریب عوام کا المیہ بھی یہی ہے۔ وہ جاگیرداروں کے منہ سے جاگیرداری کے خاتمہ اور سرمایہ داروں کے منہ سے سرمایہ داری کے خاتمے کا اعلان سن کر اور طالع آزما مذہبی سیاستدانوں کے منہ سے اسلامی انقلاب کا نعرہ سن کر بھنگڑا ڈالتے ہیں اور آخر میں جب سچائی سامنے آتی ہے تو وہ جھوٹ کا گریبان پکڑ کر اسے پتھر مارنے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن