اسلام آباد (آن لائن) سینٹ کے سابق چیئرمین وسیم سجاد نے کہا ہے کہ سابق صدر مشرف باؤنڈری لائن کو نہ چھیڑنے کے فارمولے کے تحت مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے کردار ادا کرنا خوش آئند ہو گا۔ سعودی عرب پاکستان میں استحکام کیلئے ہمیشہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں مسئلہ کے حل کی خواہش موجود ہے‘ تعلقات کی بہتری سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ مشرف فارمولا ہو یا واجپائی معاہدہ‘ مسائل کے حل میں پیشرفت ہونی چاہئے‘ گیس ہے نہ بجلی، حکومت کی اب تک کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ مشرف کی قسمت کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی تاہم مشرف نے بڑا جرم 12 اکتوبر 1999ء کو کیا تھا جب انہوں نے پورے آئین کو معطل کردیا تھا۔ 3 نومبر کو تو صرف ایک شق کو معرض التواء میں رکھا گیا۔ اس طرح بڑے جرم کو چھوڑ کر چھوٹے جرم پر کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ’’آن لائن‘‘ کو دئیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یہ فارمولا پیش کیا تھا کہ سرحدوں کو نہ چھیڑا جائے۔ کنٹرول لائن کو نرم بنایا جائے اور کشمیریوں کو دونوں اطراف آنے جانے کی بھرپور اجازت دی جائے جس کے بعد دوسرے مرحلے میں کشمیر کے دونوں حصوں پر مشتمل مشترکہ مقامی حکومت بنائی جائے مگر ان کے فارمولے میں پیشرفت نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام چاہتے ہیں کہ مسائل حل ہوں اور تعلقات کو بہتر بنایا جائے اس سے دونوں ملکوں کا فائدہ ہے اور خطے میں بھی اس سے ترقی اور خوشحالی آئے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ موجودہ حکومت تو پرویز مشرف کے فارمولے کو نہیں مانتی اور وزیراعظم نواز شریف چاہتے ہیں کہ 1997ء میں واجپائی کے دورہ پاکستان کے موقع پر طے پانے والے معاہدے کی بنیاد پر پیشرفت کی جائے۔ اس پر وسیم سجاد نے کہا کہ پیشرفت کیلئے کسی بھی معاہدے کو بنیاد بنایا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن مسئلے کے حل میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ بھی چاہتے ہیں کہ تعلقات بہتر ہوں۔ اس جذبے سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی چھ ماہ کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ ناکام نظر آتی ہے۔ اگرچہ شروع میں 500 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کرکے بجلی بحال کی گئی مگر آج پھر اسی طرح لوڈشیڈنگ جاری ہے اور گردشی قرضہ بھی دوبارہ ابھر رہا ہے جبکہ گیس بھی مکمل طور پر نایاب ہوچکی ہے۔ اس صورتحال میں معاشی ترقی ہوسکتی ہے اور نہ ہی معیشت بہتر اور عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو معیشت کی بہتری پر توجہ دینا ہوگی لیکن اب تک اس کے اقدامات کامیاب نہیں رہے۔ ڈالر بھی 110 روپے کے قریب پہنچ گیا تھا اب اسے 106 تک لایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کیس میں بھی سعودی عرب نے کردار ادا کیا تھا۔ طالبان سے مذاکرات کی حکومتی پالیسی کے بارے میں سابق چیئرمین سینٹ نے کہاکہ اب تک اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ اگر حکومت مذاکرات میں مخلص ہے تو اسے پیشرفت کرنا ہوگی ورنہ جس طرح حالات خراب ہورہے ہیں اس کی ذمہ داری براہ راست حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش میں پاکستان کیخلاف پائے جانے والے جذبات اور خاص طور پر عبدالقادر ملا کو پھانسی دینے پر تشویش کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب عالمی سطح پر بنگلہ دیش کی حکومت پر دبائو بڑھے گا تو وہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے ضرور اقدامات کرے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ حکومت کو کوئی مشورہ دینا پسند کریں گے تو انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کسی کی نہیں سنتی اسلئے کوئی مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔