ولادتِ محسن انسانیت ﷺ

محسن انسانیت ، رہبر آدمیت، سیّد عرب و عجم ، ہادی عالم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی ولادت باسعادت اور دنیا میں تشریف آوری ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ اور عظیم انقلاب ہے ، جس نے کائنات کو ایک نئی جہت ، نیا موڑ اور فلاح و کامرانی کا ایک نیا دستور عطا کیا۔
 یہ ایک تاریخی اور ابدی حقیقت ہے کہ رہبر آدمیت، محسن انسانیت، ہادی اعظم حضرت محمد کے ظہور قدسی سے عالم نو طلوع ہوا، انسانیت کی صبح سعادت کا آغاز ہوا، جب آپ نے اس جہان میں قدم رکھا، اس وقت سے تاریخ عالم نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ دنیا میں آپ کی تشریف آوری سے ایک تاریخ ساز اور مثالی دور کا آغاز ہوا۔ ایک ایسا انقلاب رونما ہوا جس نے انسانی عزت و وقار کو بحال کرکے دنیا میں امن و سلامتی اور احترام انسانیت کو عام کیا۔پیغمبر رحمت نے انسانیت کو توحید کے نور سے منوّر کرکے کفر وشرک اور ظلمت و جہالت کے اندھیروں اور تاریکیوں کو دور کیا۔ اس سے قبل انسان اس قدر پستی کا شکار تھا کہ ہرابھرتی شے کے سامنے جھک جاتا ، اتنا خوف زدہ تھا کہ ہر ہیبت ناک شے کی بندگی پر آمادہ ہوجاتا ،اتنا سہما ہوا تھا کہ ہر ایک کا زوراس پر چلتا تھا۔ وہ ظلم ، جہالت ،کفر وشرک کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا ، طبقاتی تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ جنگ و جدل اور ظلم و سفّاکی اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس تاریک دور میں انسان اتنا پست اور گھٹا ہوا تھا کہ کائنات میں سانس لیتے ہوئے خوف محسوس کرتا تھا، ظلم و استحصال اور طبقاتی و نسلی منافرت میں اتنا جکڑا ہوا تھا کہ ہر نئی زنجیر کو اپنے لیے تقدیر سمجھتا تھا۔محسن انسانیت نے دنیائے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا، اس کی عزت و آبرو کو بحال کیا، اسکے شرف و منزلت اور تکریم کا اعلان کیا۔احترام انسانیت کا درس عام کیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کائنات کااعتبار ہو یاانسانیت کی تکریم، اس کی عزت و وقار کی بحالی ہو یا شرف و منزلت اور دین و دنیا میں اسکی کامیابی ، علم کی اشاعت ہویا تہذیب و تمدن کا عروج ، یہ سب کچھ صاحب لولاک، ہادی اعظم ، سیّد عرب و عجم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم قدم سے ہے۔ یہ عالم انسانیت پر رہبر آدمیت، محسن انسانیت کے وہ احسانات ہیں، جنہیں تاریخ انسانیت کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم انسانیت کی آبرو اور اس کا وقار ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کی آبرو بڑھانے اور اسے دین کی اس روشن و درخشاں راہ پر گامزن کرنے کیلئے تشریف لائے، جو صراط مستقیم اور دین و دنیا کی کامیابی و سرافرازی کا راستہ ہے۔ ایسا روشن راستہ جس میں کہیں ظلمت اور تاریکی کا گزر نہیں اور یہی راستہ انسانیت کی فلاح اور نجات کی کلید ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت اور آپ کی اطاعت دین کی اساس اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اہل ایمان کے دل سرور کائنات کی محبت کے چراغ سے روشن رہتے اور آپ کے گلستان عقیدت و محبت کی خوشبو سے مہکتے اور لہلہاتے ہیں۔ انکے دلوں کی دھڑکن اور ہر سانس کی آمد رسول اکرم کی عقیدت و محبت، آپ کی عظمت و رفعت کے اظہار اور آپ کے ذکر سے مشروط ہے رسول اللہ کی ذات گرامی ہمارے دلوں کا کعبہ اور ہماری روحوں کا قبلہ ہے۔ رسول اللہ سے ہماری اطاعت و محبت اور غلامی کا رشتہ جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی ہمارا قبلہ محفوظ ہوگا، یہی فلاح اور کامیابی کا راستہ اور یہی نجات کی ضمانت ہے۔
آپ کی ولادت سے متعلق بہت سے ایسے امور رونما ہوئے جو حیرت انگیز ہیں؛ آپ مختون اور ناف بریدہ تھے آپ کے ظہور فرماتے ہی آپ کے جسم سے ایک ایسا نور ساطع ہوا جس سے ساری دنیا روشن ہو گئی، آپ نے پیدا ہوتے ہی دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر سجدہ خالق ادا کیا پھر آسمان کی طرف سر بلندکر کے تکبیر کہی اور ”لاالہ الااللہ انا رسول اللہ“ زبان پر جاری کیا۔ (بروایت ابن واضح المتوفی 292ھ) شیطان کو رجم کیاگیا اور اس کا آسمان پر جانا بند ہو گیا، ستارے مسلسل ٹوٹنے لگے تمام دنیا میں ایسا زلزلہ آیا کہ تمام دنیاکے کنیسے اور دیگر غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مقامات منہدم ہو گئے ، جادو اور کہانت کے ماہر اپنی عقلیں کھو بیٹھے اورانکے موکل محبوس ہوگئے ایسے ستارے آسمان پرنکل آئے جنہیں کسی نے کبھی نہ دیکھا تھا ساوہ کا دریا خشک ہو گیا وادی سماوہ جو شام میں ہے اور ہزار سال سے خشک پڑی تھی اس میں پانی جاری ہو گیا، دجلہ میں اس قدر طغیانی ہوئی کہ اس کا پانی تمام علاقوں میں پھیل گیا کاخ کسریٰ میں پانی بھر گیا اور ایسا زلزلہ آیا کہ ایوان کسریٰ کے 41 کنگرے زمین پر گر پڑے اور طاق کسریٰ شگافتہ ہوگیا، اور فارس کی وہ آگ جو ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھی، فوراً ب±جھ گئی۔ (تاریخ اشاعت اسلام دیو بندی 812 طبع لاہور)
اسی رات کو فارس کے عظیم عالم نے جسے (موبذان موبذ) کہتے تھے، خواب میں دیکھاکہ تند و سرکش اور وحشی اونٹ، عربی گھوڑوں کوکھینچ رہے ہیں اور انہیں بلاد فارس میں متفرق کر رہے ہیں، اس نے اس خواب کا بادشاہ سے ذکر کیا۔ بادشاہ نوشیرواں کسریٰ نے ایک قاصدکے ذریعہ سے اپنے حیرہ کے گورنر نعمان بن منذرکوکہلا بھیجا کہ ہمارے عالم نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے تو کسی ایسے عقلمند اور ہوشیار شخص کو میرے پاس بھیج دے جو اسکی اطمینان بخش تعبیر دے کر مجھے مطمئن کر سکے۔ نعمان بن منذر نے عبدالمسیح بن عمرالغسافی کو جو بہت لائق تھا بادشاہ کے پاس بھیج دیا۔ نوشیروان نے عبدالمسیح سے تمام واقعات بیان کئے اوراس سے تعبیر کی خواہش کی، اس نے بڑے غور و خوض کے بعد عرض کی”اے بادشاہ شام میں میرا ماموں ”سطیح کاہی“ رہتا ہے وہ اس فن کا بہت بڑا عالم ہے وہ اس خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے۔ نوشیرواں نے عبدالمسیح کو حکم دیا کہ فوراً شام چلا جائے چنانچہ روانہ ہوکر دمشق پہنچا اور بروایت ابن واضح ”باب جابیہ“ میں اس سے اس وقت ملا جبکہ وہ عالم احتضار میں تھا، عبدالمسیح نے کان میں چیخ کر اپنا مدعا بیان کیا۔ اس نے کہاکہ ایک عظیم ہستی دنیا میں آ چکی ہے۔ (روضہ الاحباب ج 1، ص 65، سیرت حلبیہ ج 1 ص 38، حیات القلوب ج 2 ص 64، الیعقوبی ص 9)۔ آج ہم مسلمان پوری دنیا میں اس ہستی کا یو م ولادت پورے جوش ولولے اور احترام سے منا رہے ہیں جن کے بارے میں حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے :
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ہمیں نبی کریم کا یوم ولادت واقعی شان وشوکت سے منانا چاہیے لیکن نبی محترم و مکرم کو خراج عقیدت پیش کرنے اور آپ کا قربت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ آپ کے اسوہ حسنہ پر کاربند رہنا ہے۔ کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟اگر ایسا کررہے ہوتے تو آج پوری دنیا میں عبرت نہ بنے پھرتے ،ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو راہ نجات نہ قرار دے رہے ہوتے۔ہمیں آج جشن ولادت مناتے ہوئے اپنی اصلاح کا عہد اور اسوہ رسول کو مشعل راہ بنانے کا عزم کرنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن