تربت میں 10 سالہ لاپتہ بچے کی لاش برآمد

تربت سے گزشتہ چند دن سے لاپتہ 10 سالہ بچے کی تشدد شدہ نعش مل گئی جبکہ فائرنگ کے دیگر واقعات میں لیویز اہلکار سمیت 5 افراد قتل کر دئیے گئے، چاکر بلوچ کو گولیاں ماری گئیں۔ اس کا 16 سالہ کزن بھی لاپتہ ہے۔
تربت کے 10 سالہ چاکر بلوچ کا بھائی قومیت پرست تحریک میں سرگرم بتایا جاتا ہے‘ اگر کوئی انسان جرم کرتا ہے تو اس کے جرم کی اسی کو سزا ملنی چاہئے نہ کہ اس کے گھر والوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔ بلوچستان میں اگر سرکٹی اور مسخ شدہ لاشیں ملنا بند نہ ہوئیں تو وہاں پر امن قائم کرنا مشکل ہو جائے گا۔ طلال بگٹی نے گزشتہ روز اس بات کا اقرار تو کیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد مسخ شدہ لاشوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ابھی تک مکمل بند نہیں ہوئیں۔ حکومت‘ فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کو یقین بنائیں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی جلد ممکن ہو سکے اس طرح بے گناہوں کی لاشیں گرنا بند ہو جائیں۔ 10 سالہ بچہ نہ تو علیحدگی کی تحریک چلا سکتا ہے نہ ہی اس میں کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ اگر ایسے معصوم بچوں کی لاشیں گرنا بند نہ ہوئیں تو صوبے میں امن کا قیام ممکن ہو جائے گا۔ بی این پی کے پاس اقتدار ہے جو خود بھی بلوچوں کیلئے ہمدردیاں رکھتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیر اعلیٰ بنے 7 مہینے ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک تشدد شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ ختم نہیں ہُوا۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے لاپتہ افراد کا مسئلہ ختم کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...