نظام کی تبدیلی

 پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے برطانوی راج تھا۔ قائداعظم ؒ کی بے مثال لیڈر شپ ،جدوجہد اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کی بدولت ایک آزاد اسلامی فلاحی ریاست پاکستان کے نام پر قائم ہوئی۔ ہم نے برطانوی راج سے تو آزادی حاصل کرلی لیکن برصغیر میں رائج قانون سے آج تک آزادی حاصل نہ کر سکے اور یوں غریب عوام کی تقدیر اس ملک کے وڈیروں ، جاگیرداروں ،نوابوں اور افسر شاہی کے ہاتھوں میں آگئی۔ آزادی کے 68 سال بعد بھی پولیس کو اُسی طرح اپنی دھاک بٹھانے ، مخالف کو دبانے اور حکومت کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے،جیسے آزادی سے پہلے کیا جاتا تھا۔ تازہ ترین سروے کیمطابق پاکستان کی پولیس دُنیا کی دس کرپٹ ترین پولیس فورسز میں سے ہے۔ یہ بات حکمرانوں کیلئے باعث ندامت ہے۔ 68 سال بعد اس ملک میں دو طبقات ہیں ۔ ایک کمزور غریب اور دوسرا دولت مند و طاقتور۔ اس ملک میں مڈل کلاس کا نہ ہونا غلامی کے نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔عوام نے دیوانہ وار بھٹو کا ساتھ دیا۔ 1993 ء میں نوازشریف نے خوشحال پاکستان کا نعرہ لگایا،لوگوں نے لبیک کہا ۔ اب 2013ء میں عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا جس کو خصوصاً نوجوان نسل نے بھرپور پذیرائی بخشائی۔ ان تمام ادوار میںاس لیے ان لیڈروںکی بات سنی کہ اُنہوں نے عوام کے دکھوںکے مداوے کی بات کی۔ فوجی عدالتوں کا قیام ہمارے عدالتی نظام کی ناکامی ہے۔ اگر عدالتیں بروقت انصاف دینے میں کامیاب ہوتیں تو اسکی ضرورت پیش نہ آتی۔ جس ملک کے اعلیٰ ترین عدالتوں کے ججوں کو سنگین دھمکیاں مل رہی ہوں وہاں پر قانون کی عملداری کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جس ملک کا صدر اور صوبے کا گورنر پٹواری کی طاقت تسلیم کرتے ہوئے اُسکے استقبال کیلئے کھڑا ہو جائے وہاں غریب کی دادو فریاد کیا انجام نوشتہ دیوار ہے جس ملک میں 11کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کو سزا کے طور پر کاٹ رہے ہوں ، جہاں 12 ہزار افراد کیلئے ایک ڈاکٹر ہو ، جہاں 22 ہزار لوگوں پر ایک پولیس افسر ہو ، جہاں چند منٹ بعد دوران زچگی مائیں زندگی کی بازی ہار جاتی ہوں ، جہاں ہیپا ٹائٹس اور کینسر کی شرح خطرناک حد کو چھو رہی ہو وہاں نظام کی درستگی ،تبدیلی کا نعرہ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے لیکن ہمارے یہاں بدقسمتی سے حکمران جماعتیں اس محبوب عوامی خواہش کو سیاسی مخالفت کی نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ حکمران حالات کی سنگینی اور عوام کی حالتِ زار کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں ۔ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ کیوں لوگ نظام کی تبدیلی کیلئے ہونیوالی جدوجہد کو اپنی تائید بخش رہے ہیں ،چاہے وہ کسی بھی پلیٹ فارم سے ہو رہی ہیں ۔ پاکستان کی موجودہ اسمبلیاں اور منتخب نمائندوں جن کے گھروں سے نکلنے سے لے کر اجلاسوں میں شرکت پر کروڑوں روپے فی دن کے حساب سے خرچ ہورہا ہے مگر یہ عوامی نمائندے کیوں اسمبلیوں کو Debating Club  اور  Get together پکنگ پوائنٹ بنائے ہوئے ہیں ۔ کیوں نہیں یہ غریب کی مشکلات کم کرنے کیلئے قانون سازی کرتے۔ یہ نمائندے کیوں نہیں پولیس، صحت، تعلیم اور زراعت سمیت دیگر محکموں میں ان فرسودہ قوانین کا خاتمہ کرکے عوام دوست قوانین بناتے۔ اجلاسوں میں بیٹھ کر دکھاوا کی مخالفت ،الزام تراشی اور کردار کشی کی بجائے برطانوی راج کی طرزِ بیوروکریسی کو تبدیل کرکے اداروں کو مضبوط اور سیاسی اثر سے آزاد نہیں کرتے۔ پھر جب انکی اس طرزِ حکمرانی پر ملک کے اہلِ دانش سمیت دوسرے طبقات لب کشائی کرتے ہیں تو فوراً جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور پارلیمنٹ کی عظمت پر آنچ آجاتی ہے لیکن پاکستان میں آزاد میڈیا کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے جس کی بدولت عوام شعور کی اُس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں اب اُن کو مزید بے وقوف بنانا ممکن نہیں ہے۔نظام کو نہ تبدیل کیا تو وفاق کمزور ہو سکتا ہے ۔ صوبوں میں نفرتیں بڑ ھ سکتی ہیں ۔ نظام کی تبدیلی میں ناکامی کسی عوامی وفوجی انقلاب کو جنم دے سکتی ہے۔ جن لوگوں نے بھی وقت کی پکار کو نظرانداز کیا،وقت نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس حقیقت کو جان لیں کہ مستقبل میں موروثی سیاست اور سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی خواہش مند پارٹیاں عوام حمایت سے محروم ہو جائیں گی۔ اب جمہوریت اور جمہوری پارٹیوں کی بقا فرسودہ نظام کی تبدیلی سے مشروط ہیں ۔ اگر نظام کی تبدیلی سے پہلے موجودہ نظام گِر گیا تو سیاسی پارٹیاں اگلے نظام کی متحمل نہیں ہو سکیں گی۔

ای پیپر دی نیشن