مٹھی میں مٹھا پانی، آرمی پبلک سکول میں آرمی چیف

دو منظر مجھے اچھے لگے۔ 12نومبر کو سکول کھلے تو آرمی پبلک سکول پشاور میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بچوں کا استقبال کیا۔ ایک چھوٹے سے بچے کو جھک کر ملے اسے چوما۔ پیار کیا اور سب طلبہ و طالبات کو سلیوٹ کیا۔ ان کی بیگم صاحبہ بھی بچیوں اور ان کی ماﺅں کو گلے لگانے کے لئے موجود تھیں۔ کوئی سیاستدان وہاں نہیں پہنچا۔ عمران اور پرویز خٹک کو تو جانا چاہئے تھا۔ عمران وضاحت کرے کہ اسے کس نے روکا۔ نواز شریف آتے کلثوم بی بی اور مریم نواز آتی۔ نثار بھی آتے۔ اس سے پہلے اتوار کے دن شہید بچوں کے لئے قرآن خوانی میں شرکت کی۔ جنرل صاحب کی بیگم صاحبہ بھی خواتین میں موجود تھیں اور قرآن خوانی کر رہی تھیں۔ وہ زمین پر وردی کے ساتھ بیٹھے ہوئے اچھے لگ رہے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے مستقبل کا استقبال کیا۔ مستقبل اور استقبال ایک ہی چیز ہے۔سکولوں میں اسمبلیاں بھی ہوں۔ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے بہت بہتر ہوتی ہیں۔ کہیں تو قومی ترانے گونجے۔ 

دوسرے منظر میں سندھ کے قحط زدہ علاقے تھر میں مٹھی کے مقام پر ”مٹھا پانی“ کے لئے ایک بہت بڑے پلانٹ کا افتتاح ”صدر“ زرداری کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی بختاور بھٹو زرداری بھی تھی۔ وہ بالکل اپنی ماں کی جیسی لگتی ہے۔ بہبود عامہ کے لمحے میں بختاور کی موجودگی ایک گونہ آسودگی کا باعث ہوئی۔ ورنہ ”صدر“ زرداری یہ سب کام اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی عدم موجودگی میں کئے جا رہے ہیں اور بھی ”سب کام“ انہوں نے اپنی محسن اہلیہ شہید بی بی بینظیر بھٹو کی عدم موجودگی میں کئے ہیں۔ ساتھ میں اداس شرمائے ہوئے اور تھکے ہارے بوڑھے سیاستدان وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بھی پیچھے پیچھے موجود تھے۔
اس سے بھی مجھے اچھا لگا کہ وہ پانی جو قحط زدہ علاقے کے بدقسمت خواتین و حضرات پئیں گے۔ ”صدر“ زرداری نے پیا۔ جب دو گھونٹ پی لیا تو گلاس رکھ دیا۔ وہ گلاس بختاور نے اٹھا لیا اور اپنے والد کا جوٹھا پانی پی لیا اور یہ پانی سچ بن گیا۔
ملنا یار جانی کا
کھلنا رات کی رانی کا
گرمی اس کی باتوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ایسا ایک بھی کام کرنے کی توفیق ”صدر“ زرداری کو نہ ہوئی۔
ایسے ہی کام سیاستدانوں اور حکمرانوں کے کرنے کے ہیں۔ یہ کام کرنے کی توفیق قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کو نہیں ہوئی۔ اب سندھ میں دور حکومت ”صدر“ زرداری کا ہے۔ مگر یہ کام پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ اچھا کام جب بھی ہو اچھا ہوتا ہے۔
قائم علی شاہ کی کون سی ”خدمت“ زرداری صاحب کو بے چین رکھتی ہے۔ وہ ارادہ رکھتے ہیں کہ قائم علی شاہ کو تیسری بار بھی وزیر اعلیٰ بنائیں گے۔ نجانے ان سے ”صدر“ زرداری کا کیا تعلق ہے؟
مگر ذکا اشرف سے کیا تعلق ہے کہ اس کا ایک گھریلو اور ذاتی اجتماع اپنے گھر بلاول ہاﺅس لاہور میں کروایا۔ میں اگر مفتی ہوتا تو کہتا کہ یہ ولیمہ نہیں ہوا۔ شکر ہے کہ نکاح کی رسم ایک دن پہلے بارات پرہو جاتی ہے۔ ذکاءاشرف کے ساتھ ”صدر“ زرداری کی اتنی گہری دوستی کا پہلے کسی کو پتہ نہ تھا۔ کچھ ہے سہی اندر کھاتے۔
شیخ ریاض اور رحمان ملک تو جیل کے ساتھی ہیں۔ بہت وفا والے آدمی ہیں۔ ڈاکٹر سومرو نے جیل کے دنوں میں زرداری صاحب کی ”خدمت“ کی انتہا کر دی۔ جیل کے دنوں میں وہ دن بھی شامل ہیں جو زرداری صاحب نے ہسپتال میں گزارے اور بڑے مزے سے گزارے۔
ایک شادی ایوان صدر میں بھی ہوئی تھی مجھے ”صدر“ زرداری کے اس ”دوست“ کا نام بھول گیا ہے شاید وزیراعظم گیلانی کے کسی بیٹے کی شادی تھی۔ اس تقریب میں گیلانی صاحب کا سارا گھرانہ شریک ہوا ہو گا۔ راجہ رینٹل پرویز اشرف اتنے دن اور اتنی راتیں وزیراعظم نہ رہے تھے اس دوران ان کا بیٹا بھی اتنا جوان نہ ہوا تھا کہ اس کی شادی بھی ایوان صدر میں ہوتی۔ ”صدر“ زرداری کس خوشی میں بلاول ہاﺅس کے اندر ذکاءاشرف کے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے۔ یہ منظر اچھا نہ تھا۔ یہ منظر پشاور میں اچھا تھا جہاں سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف ننھے مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے جو پاکستان کے مہمان ہیں۔ مگر یہ خبر خود ”صدر“ زرداری نے دی تھی کہ وہ پشاور میں بھی بلاول ہاﺅس بنائیں گے۔ اب وہاں بھی ”دوستوں“ کی شادیاں ہوا کریں گی۔
حد تو یہ ہے کہ ذکاءاشرف کے بیٹے کے ولیمے کے دعوتی کارڈ بھی ”صدر“ زرداری کی طرف سے ”دوستوں“ کو ملے۔ یہ بات مجھے برادرم منور انجم نے بتائی کہ دعوت نامہ بھی ”صدر“ زرداری کی طرف سے تھا تو اپنے بیٹے کے ولیمے میں ذکاءاشرف نے کیا کردار ادا کیا تھا۔ ذکاءصاحب منور انجم کے دوست ہیں۔ اس لئے شک ہوا کہ منور انجم کو یہ دعوت ذکاءاشرف کی طرف سے ملی ہو گی۔ منور انجم کو ہم نے بینظیر بھٹو کی ان تھک خدمت کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ تو زرداری صاحب کی بھی انتھک خدمت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ پکا سچا جیالا ہے۔ مگر ڈاکٹر قیوم سومرو کا دعویٰ ہے کہ ”صدر“ زرداری کی ”خدمت“ کے لئے صرف میں پیدا ہوا ہوں۔ پریس کلب میں بینظیر بھٹو کی لندن یا دبئی سے پریس بریفنگ کے لئے برادرم سجاد بخاری بھی بہت سرگرم تھا مگر سب سے آگے آگے منور انجم تھا۔ پیپلز پارٹی کے لئے کسی کو کچھ ضرورت پڑے تو صرف ایک شخص یاد آتا ہے۔ منور انجم۔ کبھی کبھی نوید چودھری بھی یاد آتا ہے۔ ”صدر“ زرداری کو ان خواتین و حضرات کی ضرورت نہیں ہے جن کی ضرورت بینظیر بھٹو کو تھی۔ مگر شیری رحمان اور رحمان ملک کون ہیں۔ اب یہی معاملات بلاول اور ”صدر“ زرداری کے درمیان چل نکلے ہیں۔ اکثر جیالوں کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بی بی شہید کے ساتھ تھے اور ”صدر“ زرداری کے بھی ساتھ ہیں۔ یہ فیصلہ ”صدر“ زرداری خود کرتے ہیں یا ڈاکٹر سومرو کرتے ہیں۔ برادرم اسداللہ غالب نے پیشن گوئی کی ہے کہ صدر ”زرداری“ اور پیپلز پارٹی کا اگلا وزیراعظم ڈاکٹر قیوم سومرو ہو گا؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...