پیر کے روز امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل آسٹن بیک وقت پاکستان کے دورے پر پہنچے ۔ جان کیری کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کلیدی حیثیت کی حامل تھی ۔ اس ملاقات کے بعد ایک ڈنربھی ہوا جس کے بارے میں ایک امریکی سفارت کار کا کہنا تھا کہ ڈنر اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا جس میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مختلف پہلوئوں پر بات چیت ہوئی ۔ جان کیری اور جنرل آسٹن کی ملاقاتوں کی خبریں اور تصویریں شائع ہوئیں۔ لیکن اس کے علاوہ پاک امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ میں شرکت کیلئے امریکی افسروں کا ایک وفد بھی اسلام آباد میں تھا جس نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز ، طارق فاطمی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ملاقاتیں کیں ۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینٹ جنرل رضوان اختر سے بھی امریکی حکام کی ملاقات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ ایسے وقت میں پاکستان آئے ہیں جب ایک طرف پاکستان نے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب آپریشن شروع کیا ہوا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے پاکستان پر زور دے رہا تھا کہ وہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں تباہ کرے تاکہ القاعدہ اور تحریک طالبان کے وہ عناصر جو افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج پر حملے کر رہے ہیں انہیں ختم کیا جائے۔ جان کیری‘ جنرل آسٹن اور دوسرے امریکی حکام کو آپریشن ضرب عضب پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اس بریفنگ میں امریکیوں کو بتایا گیا کہ پاکستان بلاامتیاز تمام طالبان گروپوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ امریکہ ہمیشہ پاکستان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے جسے امریکہ پاکستان کو ایک Asset قرار دیتا رہا ہے۔
پاکستان کی طرف سے امریکی وفد کو بتایا گیا کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے۔ وفد کے ارکان کو نقشوں کے ذریعہ بتایا گیا کہ پاک فوج شمالی وزیرستان میں کس نوعیت کا آپریشن کر رہی ہے۔ بظاہر تو امریکی مطمئن نظر آتے ہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک سمیت تمام گروپوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے تاہم ابھی انہیں شک ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو مستقلاً ختم کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ پاکستان کی طرف سے امریکی وفد کو یہ بھی بتایا گیا کہ آپریشن ضرب عضب پر کثیر اخراجات ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے اس آپریشن پر 2 ارب ڈالر کے اخراجات کا تخمینہ بنایا ہے۔ امریکی صرف 250 ملین ڈالر دینے پر آمادہ ہیں۔ یہ رقم شمالی وزیرستان آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد آئی ڈی پیز کے کھانے‘ علاج معالجے اور علاقے کی تعمیر نو کے لئے ہے۔ اتنے بڑے آپریشن اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے 250 ارب ڈالر کی رقم بہت ناکافی ہے البتہ امریکہ یہ تسلی دے رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے لیکن وہ پاکستان کو نہیں چھوڑے گا۔ کیری لوگر امن سمجھوتہ کے تحت پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد دینے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ مستند ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ ابھی بھی اس بات پر پوری طرح یقین نہیں رکھتا کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں جو آپریشن کر رہا ہے اس میں وہ حقانی نیٹ ورک کو مستقلاً ختم کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ فاٹا میں سڑکوں‘ پلوں اور سکولوں کی تعمیر کے لئے پیسہ دینا چاہتا ہے۔
وزیر خارجہ جان کیری بھارت سے پاکستان آئے تھے تو انہوں نے پاکستانی حکام کو بھارت میں اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ لیکن جان کیری نے کوئی عندیہ نہیں دیا کہ بھارت پاکستان کی سرحد پر اشتعال انگیزی نہیں کریگا۔ جان کیری اور ان کے وفد نے پاکستانی حکام سے کاؤنٹر ٹیررازم اور آئی ڈیز دھماکہ خیز کے مواد کے سدباب کے لئے بھی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ امریکی اس بات پر مطمئن ہیں کہ افغانستان میں صدر اشرف غنی پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون چاہتے ہیں۔ امریکہ کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی بھی ابھی نئے نئے بھارت کے وزیراعظم بنے ہیں‘ اشرف غنی افغانستان کے حال ہی میں صدر بنے ہیں‘ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھی اقتدار کے دوسرے سال سے گزر رہے ہیں ان تینوں کے درمیان مفاہمت اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ وہ اس بات پر قدرے مطمئن ہیں کہ پاکستان میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں پشاور کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی ٹھوس انداز میں مدد کرے گا۔ پاکستان کو ضرب عضب کے لئے جو 2 ارب ڈالر درکار ہیں وہ فراہم کرنے کے لئے امریکہ کی طرف سے کوئی واضح کمٹمنٹ نہیں ہوئی۔پاکستان کو ضرب عضب کیلئے گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی چاہئیں امریکہ پاکستان کو گن شپ ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے پر آمادہ نہیں۔