پرویز مشرف صاحب کو شاید یاد نہیں رہا کہ کامران کیانی نام کے ایک شخص نے ٹھیکے داری کا کاروبار ان دنوں شروع کیا تھا جب ان کے بھائی راولپنڈی کے کور کمانڈر ہوا کرتے تھے۔ مشرف صاحب اس وقت ہمارے ملک کے چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہنے ایک طاقتور ترین صدر بھی تھے۔ تخریب کاروں نے گھات لگاکر ان کی جان لینے کی کوشش کی تو روایتی تفتیشی اداروں سے رجوع کرنے کے بجائے مشرف صاحب نے جنرل کیانی کو مجرموں کا سراغ لگانے کی ذمہ داری سونپی۔
کیانی صاحب نے بڑی یکسوئی کے ساتھ بھرپور ارتکازِ ذہن سے پوری سازش اور اس سے جڑے افراد کا سراغ لگالیا۔ شاید ان کی اسی صلاحیت نے پرویز مشرف کو مائل کیا کہ DG ISIجیسا طاقت ورعہدہ ان کے سپرد کردیا جائے۔اس حیثیت میں کام کرنے کے بعد جنرل کیانی آرمی چیف بننے کے مستحق ٹھہرے اور یہ تعیناتی کسی اور نے نہیں بلکہ جنرل مشرف نے اپنے دستخطوں سے کی تھی۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کی صلاحیتوں کو اپنی نگاہِ مردم شناس سے دریافت کرنے کے بعد انہیں زیر شفقت لاکر آرمی چیف کے عہدے تک پہنچانے والے پرویز مشرف کو اب زیب نہیں دیتا کہ ان دنوں جب اس شخص کے بھائیوں کی وجہ سے چسکے بھری کہانیاں میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں تو وہ بھی گنداُچھالنے کا ذریعہ بن جائیں۔ منگل کی شب ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے ’’کیانی کے بھائیوں‘‘ کو پرویز مشرف نے مال کمانے کی ہوس میں مبتلا بتایا تو مجھے دُکھ ہوا۔ کامران اور امجد کیانی اپنے بھائی کے نام کو مبینہ طورپر اپنے کاروبار چمکانے کے لئے اگر واقعتا استعمال کررہے تھے تو انہیں روکنے کا اصل وقت وہ تھا جب پرویز مشرف پاکستان کے فوجی وردی پہنے طاقت ور ترین صدر ہوا کرتے تھے۔
پرویز مشرف ہی کی طرح شہباز شریف بھی مجھے اس وقت بہت عجیب لگے جب حامد میر کے مشہور ٹاک شو میں ’’اچانک‘‘ نمودار ہوگئے۔ قوم کے غم میں ہمہ وقت گہری اور اداس ہوتی آواز میں پاکستان میں گڈ گورننس کی علامت سمجھے جانے والے شہباز شریف نے حامد کی وساطت سے اطلاع ہمیں یہ دی کہ لاہور رنگ روڈ کی تعمیر کاٹھیکہ چودھری پرویز الٰہی نے کامران کیانی کی کمپنی کو دیا تھا۔ شہباز صاحب کو ان کا کام معیاری نظر نہیں آیا۔ افسران سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ ٹھیکہ جس شخص کے پاس ہے وہ جنرل پرویز کیانی کا بھائی ہے۔ یہ اطلاع مل جانے کے بعد ’’ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو-میں نہیں مانتا- میں نہیں مانتا‘‘ کا ورد کرتے ہوئے ڈائس پر لگے مائیک کو فرش پر پٹخ دینے والے شہباز شریف نے فوراََ کوئی فیصلہ نہ کیا۔ اشفاق پرویز کیانی سے بلکہ ملاقات کا وقت مانگ لیا اور ملاقات کے دوران ان کے چھوٹے بھائی کی شکایت لگائی۔ اس ملاقات کا بظاہر کوئی فائدہ نہ ہوا تو گلہ کرنے شہباز صاحب ایک بار پھر اس وقت کے آرمی چیف کے ہاں تشریف لے گئے۔ بات پھر بھی نہ بنی تو کامران کا ٹھیکہ بالآخر منسوخ کردیا گیا۔
شہباز صاحب کی گڈگورننس کی تلاش میں تھرتھراتی شہادت کی اُنگلی سے پنجاب کے طرم خان بنے افسران کو بہت خوف آتا ہے۔ کامران کیانی کے ضمن میں خدا جانے وہ اُنگلی مناسب وقت پر کیوں نہ اُٹھ پائی۔ معاملے کوبڑے بھائی کے روبرو شکایت پیش کرنے کی ضرورت آن پڑی۔ جان کی امان پاتے ہوئے عرض کروں گا تو صرف اتنا کہ شہباز صاحب کو اپنی گڈگورننس کا بھرم رکھنے کی خاطر کامران کیانی کے معاملے پر وقت گزرجانے کے بعد خاموش ہی رہنا چاہیے تھا۔ کسی شخص کے طاقت ور عہدے سے ہٹ جانے کے بعد سچ بولنا تو کوئی قابلِ فخر بات نہیں۔
میری دس سے زائد صحافیوں کے ہمراہ جنرل کیانی سے صرف ایک ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت وہ DG ISIہوا کرتے تھے۔ ان کے دفتر میں ہوئی اس ملاقات کا موضوع صرف اور صرف مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور پاکستان کی اس کے بارے میں ممکنہ پالیسی کے خدوخال کی بابت گفتگو تک محدود رہا۔ اس کے علاوہ دوسرسری ملاقاتیں جنرل احسان کے بیٹے کی شادی کی ایک تقریب اور پھر چین کے یومِ دفاع والے استقبالیے میں ہوئی تھیں۔ دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے اگرچہ میں نے پرویز کیانی کے آرمی چیف بننے کی وقت سے پہلے خبر دی تھی اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا اعلان بھی گزشتہ دورِ حکومت میں میرے ایک ٹی وی پروگرام میں کہی باتوں کے عین ایک دن بعد ہوا تھا۔
جنرل کیانی جب چیف آف آرمی سٹاف ہوا کرتے تھے تو ہمارے کئی نامور ’’دفاعی تجزیہ کار‘‘ انہیں ایکThinking Generalکے طورپر بہت عقیدت کیساتھ متعارف کروایا کرتے تھے۔ افغانستان کے معاملات کو سلجھانے کے لئے کیانی صاحب نے کچھ صفحات پر مشتمل ایک دستاویز بھی لکھی تھی۔ اس دستاویز کو اوبامہ کے حوالے کیا گیا تو ان ’’دفاعی تجزیہ کاروں‘‘ نے دادوتحسین کے الفاظ ڈھونڈنے کے لئے انگریزی کی تمام لغات کو کنگھال ڈالا۔
پیدائشی بزدل اور محتاط ہوتے ہوئے میں التجا کرتا رہا تو صرف اتنی کہ اوبامہ اپنے جرنیلوں کے لکھے مقالوں کو بھی بہت سفاکی کے ساتھ رد کردیتا ہے کیونکہ اسے اپنے تئیں کتابیں پڑھنے اور غوروخوض کا مرض لاحق ہے۔ ایڈمرل مولن ایک دورے کے لئے پاکستان آیا تو جنرل کیانی اسے قبائلی علاقے دکھانے کے بجائے اس کے پسندیدہ دوسائی پہاڑکا فضائی منظر دکھانے لے گئے تھے۔ یہ ’’حساس اطلاع‘‘ بھی میں نے اپنے قارئین وناظرین کو فراہم کی تھی۔ میموگیٹ کے دنوں میں جنرل کیانی کے رویے کی بابت بھی میں ناخوش رہا تھا۔
آج جب وہ ریٹائر ہوکر خاموشی سے اپنے گھر بیٹھ گئے ہیں تو ان کے بھائیوں کی وجہ سے ان پر وہ پتھر اُچھالنے کی ہرگز ضرورت نہیں جو بہت ’’جی دار‘‘ مفکرینِ کرام نے ان کے عروج کے وقت خوف کے مارے اپنی جیبوں میں ڈال لئے تھے۔ احتساب بیورو نے کیانی برادر ان پر ہاتھ ڈال ہی لیا ہے تو اسے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی تفتیش مکمل کرنے دیں۔ امجد کیانی کو ٹی وی سکرینوں پر لگی متوازی عدالتوں میں اپنی صفائیاں پیش کرنے کے مواقع اس قوم کو ’’سب گول مال ہے‘‘ والی مایوسی کے علاوہ اور کچھ فراہم نہ کرپائیں گے۔ رحم کیجئے اور اگر متوازی عدالتیں لگاکر ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ہی پورا سچ ڈھونڈنا ہے تو ڈاکٹر عاصم کے کسی بیٹے یا بیٹی کو بھی اپنے پروگراموں میں مدعو کرلیجئے۔ آپ کے ’’ذرائع‘‘ مگر اس سے ناراض ہوجائیں گے۔