بہت سی خبریں ہیں لیکن کئی پر ” جھوٹ غالب ہے ۔ اِس پر مجھے مرزا غالب یاد آئے جنہوں نے کہا تھا کہ ....
” کہتا ہُوں سچّ کہ جُھوٹ کی عادت نہیں مجھے“
گویا مرزا غالب جھوٹ بولنے کو عادت سمجھتے تھے ۔ وزیراعظم نواز شریف نے دیوانِ غالب نہیں پڑھا ہوگا ۔ کئی سال سے حکومت کے حُکم پر قصاب حضرات منگل اور بدھ کو گوشت فروخت کرنے کا ناغہ کرتے ہیں لیکن جنابِ وزیراعظم اپنے مخالف سیاستدانوں کو کِس قانون کے تحت پابند کرنا چاہتے ہیں کہ ” آپ لوگ منگل اور بُدھ کو جُھوٹ بولنے کا ناغہ کِیا کریں“۔ کیا مسلم لیگ نُون کے قائدین اور نُون لیگ کے اتحادی بھی سب کے سب بلاناغہ سچ بولتے ہیں ؟ خُوشحال گوشت خور سوموار ( پیر ) کو گوشت خرید کر جمع کر لیتے ہیں ۔ غریب غُربا تو گوشت خرید ہی نہیں سکتے اور انہیں تو بلا ناغہ سچ بولنے کی عادت ہوتی ہے ۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کون سیاستدان مسلسل جُھوٹ بولتا ہے اور کون ناغہ کرتا ہے ۔ ” شاعرِ سیاست“ نے دو سال پہلے ” مَیں باغی ہُوں “ کا دعویٰ کرنے والے ملتان کے جناب جاوید ہاشمی کی ترجمانی کرتے ہُوئے کہا تھا ....
” مَیں ، منگل بُدھ کا ناغی ہُوں
مَیں لوڈ شیڈنگ میں چراغی ہُوں
خُوشیوں کے باغ میں رہتا ہُوں
مَیں باغی ہُوں ، مَیں باغی ہُوں“
افسوس کہ منگل ، بُدھ کے ناغی جناب جاوید ہاشمی کے لئے دوبارہ مسلم لیگ ن میں شمولیت کا دروازہ کُھلنے میں ہی نہیں آ رہا ۔ پنجابی زبان میں جُھوٹ کو ”جُھوٹھ “کہتے ہیں اور جُھوٹا وعدہ کرنے یا سبز باغ دکھانے کو لارا ۔ لارا دینا یا لارا لاﺅنا ترکیب ہے ۔ ایک پنجابی فلم میں ہیروئن نے گا کر اپنے محبوب کو یہ پیغام پہنچایا تھا کہ ....
” کوئی نَواں لارا لا کے ، مَینوں رول جا
جُھوٹھیا وے ، اِک جُھوٹھ ہور بول جا“
یعنی اے میرے جُھوٹے محبوب ” ایک بار پھر مجھے جُھوٹھا لارا لگا کر پریشان کرنے کے لئے آ جا“۔ مرزا غالب بہت سیانے تھے اُنہیں عِلم تھا کہ ۔ اُن کے محبوب کا وعدہ ( لارا ) جُھوٹا وعدہ ہے۔ اُنہوں نے نہ جانے کِس قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوا دِیا تھا کہ ....
” تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جُھوٹ جانا
کہ خُوشی سے مر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا؟ “
کاش پاکستان کے ووٹرز ( خواتین و حضرات ) بھی مرزا غالب کی طرح سیانے ہوتے ۔ وہ ہر سیاسی لیڈر ( مذہبی لیڈروں کو بھی ) اپنا مسیحا سمجھ کر اُن لاروں ( جُھوٹے وعدوں ) پر یقین کرلیتے ہیں اور جب وہ وعدے پُورے نہیں ہوتے تو غُربت کی لکیر سے نیچے نیچے ۔ اُس سے بھی نیچے چلے جاتے ہیں ۔ 2013ءکے عام انتخابات کی آمد پر ” شاعرِ سیاست“ نے کہا تھا....
”وعدوں کا کیک ، طِفل تسلّی کی چاکلیٹ
حرکت میں آگئے ہیں ، سبھی سیاسی ہَیوی ویٹ
محمود سے مُعانقہ ہوگا، ایاز کا
ہر شخص کو مِلے گا محبت کا آملیٹ
منشور مختلف ہیں ، مگر لارا ایک ہے
”کھولیں گے ہم عوام کی خُوش قِسمتی کا گیٹ“
....O....
حضرت داغ دہلوی کا دَور جمہوریت / سیاست کا دَور نہیں تھا لیکن اُنہوں نے ” جُھوٹ کے پُل باندھنے والے سیاستدانوں کے بارے میں پیشگی کہہ دِیا تھا کہ....
” میرے پیغامبر سے اُس نے کہا
جُھوٹ کا خوب ، تُم نے پُل باندھا“
فوجی حکمران تو خیر غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کے دعویدار نہیں تھے لیکن سوشلزم/ اسلامی سوشلزم کے نفاذ اور ”طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں “ کا لارا لگا کر ” عوام کی طاقت “ کو نظر انداز کرکے ، پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد سویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر، صدر پاکستان اور وزارتِ عظمیٰ کے 5 سال اور 7 سال اقتدار کے جُھولے جُھولنے والے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر چڑھ گئے لیکن اُن کا لارا، لارا ہی رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پاپا کی ”شہادت “ کیش کرا کے دوبار وزارتِ عظمیٰ حاصل کی لیکن عوام کو لاروں پر ہی ٹرخایا۔ نان گریجویٹ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے محترمہ کے قتل کو کیش کرایا۔ انہوں نے تو عوام کو کوئی لارا لگانے کا کوئی "Risk" ہی نہیں لِیا ۔
جب میڈیا کے نمائندوں نے اُن سے پوچھا کہ ” آپ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دوسرے مُعطّل جج صاحبان کی بحالی کا بیان دِیا تھا “ تو جنابِ زرداری نے کہا تھا کہ ” وہ میرا سیاسی بیان تھا کوئی قرآن و حدیث کی بات تو نہیں تھی؟ “ ۔
پانامہ لِیکس کیس کے بارے میںوزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی کے ایوان میں اپنی اور اپنے خاندان پر لگائے گئے الزامات کے جوابات دینے کے لئے دو تقریریں کِیں ۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے رُو برو وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ صاحب نے مو¿قف اختیار کِیا کہ ”قومی اسمبلی میں جنابِ وزیراعظم کی تقریر سیاسی تقریر تھی“۔
12 جنوری کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رُکنی لارجر بینچ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ” اگر وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں پورا سچ نہیں بتایا تو کیا یہ غلط بیانی نہیں ہوگی؟۔ وزیراعظم نے کوئی بات چُھپائی ہے تو اِسے آدھا سچ مانیں گے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ” دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے “ اور یہ بھی کہا تھا کہ ’ میری زندگی کُھلی کتاب ہے “ لیکن لگتا ہے کہ اُس کتاب کے بعض صفحات غائب ہیں “۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ” وزیراعظم کی پہلی تقریر میں کوئی چیز رہ گئی تھی تو وہ اُسے دوسری تقریر میں شامل کرسکتے تھے “ ۔ قوم سچ جاننا چاہتی ہے لیکن فریقین نہیں چاہتے کہ سچ سامنے آئے !“۔
کسی مقدمے میں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالتیں شواہد کی بنیاد پر کرتی ہیں ۔ فریقین کے وُکلاءاپنے دلائل سے عدالت کی معاونت کرتے ہیں اور اپنے مو¿کلوں کے حق میں فیصلہ کرانے کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ جِس فریق کے خلاف فیصلہ ہو جائے وہ نا خوش رہتا ہے لیکن پانامہ لِیکس کیس میں قوم بھی تو فریق ہے۔ تبھی تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ ” قوم سچ جاننا چاہتی ہے “اِس لئے اگر اِس مقدمے میں فیصلہ قوم کی خواہشات کے مطابق نہ ہُوا تو کیا ہوگا؟ تیسری بار وزارتِ عظمی کے جُھولے جُھولنے والے وزیراعظم کی ” زندگی کی کتاب “ سے ” غائب ہونے والے صفحات“ کو کون تلاش کرے گا؟ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ہر اِنسان کے ساتھ اُس کے اعمالِ نیک اور اعمالِ بد لِکھنے کے لئے دو فرشتے تعینات ہیں جنہیں ” کراماً کاتبِین “ کہا جاتا ہے ۔ اُن فرشتوں تک کِس کی رسائی ہے ؟ کہ وہ سپریم کورٹ کو ( وزیراعظم کی خواہش کے مطابق دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی “ کرنے میں مدد دیں؟“۔ اگر وزیراعظم کی زندگی کی کتاب کے غائب صفحات برآمد نہ ہو سکے تو کیا یہ فیصلہ داورِ حشر کی عدالت پر چھوڑ دِیا جائے گا؟
کسی مُلک کے قانون کو "Law Of The Land" کہتے ہیں۔ مُجھے خوف ہے کہ کہیں ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت جُھوٹ ( Lie) نہ بولنے لگے ۔ مجھے وطنِ عزیز کے لئے "Lie Of The Land" کے نام سے بھی خوف آتا ہے۔