وفاقی وزارت داخلہ نے 94 مدارس کو مشکوک قرار دے کر ان پر پابندی لگانے کی سندھ حکومت کی درخواست نامکمل معلومات اور ناکافی شواہد کی بناء پر مسترد کردی ہے۔ سندھ حکومت نے جن مدارس کی فہرست وفاقی حکومت کو دی تھی وہ صرف سندھ ہی نہیں‘ فاٹا اور دیگر صوبوں میں بھی موجود ہیں۔ وفاقی وزارت داخلہ نے اس سلسلہ میں حکومت سندھ کو اپنے جوابی مراسلہ میں باور کرایا ہے کہ مشکوک مدارس کا اتہ پتہ ہے‘ نہ کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی انکے بارے میں کسی قسم کے شواہد ملے ہیں۔ اسی طرح سندھ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ لسٹ میں نہ تو مذکورہ مدارس کو مشکوک قرار دینے کا کوئی جواز مہیا کیا گیا ہے اور نہ ہی انکے مکمل ایڈریس اور دوسری ضروری تفصیلات فراہم کی گئی ہیں جبکہ سکھر اور کراچی کی حدود سے باہر موجود مدارس کے ناموں کا اندراج تک نہیں۔ جوابی مراسلہ میں باور کرایا گیا ہے کہ لسٹ میں درج اکثر مدارس سندھ کے بجائے خیبر پی کے‘ پنجاب اور فاٹا میں ہیں جو سندھ حکومت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے جبکہ سندھ حکومت کے مراسلے میں اس امر کی بھی نشاندہی نہیں کی گئی کہ مشکوک مدارس کیخلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جائے اس لئے لسٹ میں درج مدارس کیخلاف کارروائی کی سفارش سمجھ سے بالاتر ہے۔ جوابی مراسلہ میں سندھ حکومت کو یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ نامکمل معلومات اور مبہم زبان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صوبائی حکام کی جانب سے یہ قدم نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی اور سیاسی مقاصد کے تحت اٹھایا گیا ہے اس لئے صوبائی حکومت کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنی انتظامی حدود تک محدود رہتے ہوئے مصدقہ اور قابل عمل معلومات فراہم کرے اور یہ امر ذہن میں رکھے کہ اس ضمن میں اٹھائے گئے کسی بھی قدم کا قانونی جواز موجود ہونا چاہیے۔
بلاشبہ آج ہمیں دہشت گردی کے خاتمہ کے ہی بڑے چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ اس ناسور نے خوف و دہشت کے سائے پھیلا کر بھی ہماری معیشت و تجارت کو جھٹکے لگائے ہیں اور ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات پہنچا کر بھی ہمیں عدم استحکام سے دوچار کیا ہے جبکہ اسی تناظر میں ہمارے مکار دشمن کو اندرونی طور پر ہمارے کمزور ہونے کا تاثر ملتا ہے‘ نتیجتاً وہ ہماری سلامتی اور خودمختاری کیخلاف نئی سازشوں کے تانے بانے بننے لگتا ہے۔ چنانچہ آئینی طور پر شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ضامن حکومتی ریاستی اتھارٹی کی بنیادی ذمہ داری ملک اور عوام کو دہشت و وحشت کے اس ماحول سے خلاصی دلانے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی ہی بنتی ہے۔ دو سال قبل سانحۂ اے پی ایس پشاور کی بنیاد پر اس ریاستی ذمہ داری کا احساس زیادہ اجاگر ہوا تو دہشت گردی کے قلع قمع کیلئے سیاسی اور عسکری قیادتیں یکجہت نظر آئیں چنانچہ دہشت گردی کے ناسور سے نجات کیلئے قومی سیاسی‘ دینی اور عسکری قیادتوں کے اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان تیار کرکے اپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ اس سے قبل حکومتی حلقوں کی عمومی سوچ دہشت گردوں اور انتہاء پسند تنظیموں کے ساتھ امن مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی راہ ہموار کرنے کی تھی جس کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا مگر دہشت گردی میں مصروف عناصر کی جانب سے امن مذاکرات کی ہر پیشکش کا جواب ملک کے کسی نہ کسی مقام پر گھنائونی دہشت گردی کے ذریعہ دیا جاتا رہا۔ اس تناظر میں حکومتی حلقوں کی امن مذاکرات کی سوچ پر اس وقت بھی چہ میگوئیاں ہوتی تھیں اور اسے انتہاء پسند اور دہشت گرد تنظیموں کیلئے حکومتی نرم گوشے سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ تاہم سانحہ اے پی ایس نے انتہاء پسند دہشت گردوں کے معاملہ میں کسی بھی قسم کے نرم گوشے کی کوئی گنجائش نہ رہنے دی اور افواج پاکستان نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد پر دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے میدان میں اتر آئیں۔
اس 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے بنیادی نکات میں اندرونی اور بیرونی فنڈنگ سے پرورش پانے والے دینی مدارس کی کڑی سکروٹنی‘ بین الاقوامی طور پر کالعدم قرار دی گئی تنظیموں اور انکے قائدین کو کام سے روکنا اور انکی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنا‘ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرپرستوں پر بھی سخت ہاتھ ڈالنا اور نام بدل کر کام کرنیوالی کالعدم تنظیموں کیخلاف بھی ایکشن لینا شامل ہے اور یہ طے شدہ امر ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی ہر شق پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کے بغیر ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلہ میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے جس میں کسی کمی‘ رعایت یا نرمی کا ملک کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا۔ وفاقی وزارت داخلہ کی اس حوالے سے اس لئے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ قانون اور امن نافذ کرنیوالے زیادہ تر ادارے وفاقی وزارت داخلہ کے ہی ماتحت ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ پر وفاقی اور صوبائی حکمرانوں میں اپنے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر یقیناً کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے جس کی جو ذمہ داری بنتی ہے وہ بہرصورت نبھائی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے اگر کسی صوبے میں متعلقہ حکومت کی فعالیت نظر نہیں آتی تو وفاقی حکومت کو اسے فعال بنانے کیلئے اسے درکار سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے اور پھر اپنی فعالیت کو بھی اس کیلئے مثال بنانا چاہیے مگر بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پروگرام بوجوہ وفاقی حکمرانوں کیلئے ایک ایسا کمبل بن چکا ہے جس سے وہ جان چھڑانے کی کوششوں میں مگن نظر آتے ہیں‘ بالخصوص انتہاء پسند دینی مدارس اور دوسری تنظیموں کی نقل و حرکت پر نیشنل ایکشن پلان کے مطابق پابندی لگانے سے وفاقی حکمران گریز پا نظر آتے ہیں جس کا اعلیٰ عدلیہ اور کوئٹہ انکوائری کمیشن کے سربراہ کی جانب سے نوٹس بھی لیا جاچکا ہے اور کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بالخصوص وفاقی وزیر داخلہ اور وزارت داخلہ کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا گیا تو وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں اس پر سخت برہم نظر آئے جنہوں نے کمیشن کے سربراہ فاضل جج سپریم کورٹ کی ذات پر بھی تنقید کے نشتر برسانا ضروری سمجھا۔ اسی تناظر میں دو ہفتے قبل سندھ حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ کرنے کا موردالزام ٹھہرایا گیا تو وفاقی حکومت کے جواب الجواب میں ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکور ہوتے نظر آئے جسے ملک کی بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں نے فرقہ واریت اور دوسری بنیادوں پر ہونیوالی دہشت گردی میں امتیاز کی ایک بے معنی بحث چھیڑ دی جس سے اس تاثر کو مزید تقویت حاصل ہوئی کہ وفاقی حکومت کے بعض حلقے آج بھی دہشت گردی کی جنگ میں انتہاء پسند تنظیموں اور انکے ارکان کیخلاف ایکشن سے گریز پا ہیں۔ یہ صورتحال نیشنل ایکشن پلان کو عملاً سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے جبکہ اب انتہاء پسندی کے حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی 94 مشکوک مدارس کی فہرست پر وفاقی وزارت داخلہ نے جس ردعمل کا اظہار کیا اور ان تنظیموں پر پابندی لگانے سے انکار کیا ہے۔ اس سے بادی النظر میں وفاقی وزیر داخلہ کے بعض انتہاء پسند عناصر بشمول انتہاء پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث مدارس کیلئے نرم گوشے کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔ اگر اس فہرست میں درج بعض مدارس کی تفصیلات اور انکے کوائف مکمل نہیں ہیں تو یہ ان تنظیموں پر پابندی عائد نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں جبکہ ان تنظیموں کے تمام کوائف اکٹھے کرنا وفاقی ایجنسیوں کیلئے چنداں مشکل نہیں۔ وفاقی حکومت کو تو اس معاملہ میں صوبائی حکومت کا معاون بننا چاہیے چہ جائیکہ اسے اس ایشو پر سیاست کرنے کا طعنہ دیا جائے۔
اس تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ اور انکے ماتحت وفاقی وزارت داخلہ اس مائند سیٹ کی ترجمان نظر آتی ہے جو دہشت گردی کی جنگ کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ مائنڈ سیٹ دہشت گردوں میں اچھے اور برے کی تمیز کرنیوالا ہے۔ اگر کوئی شخص یا تنظیم فرقہ واریت کی بنیاد پر بندوق اٹھا کر‘ گولہ بارود لے کر اور خودکش جیکٹ پہن کر ملک کے بے گناہ عوام اور سکیورٹی فورسز کے ارکان کے جسموں کے پرخچے اڑاتی ہے تو اس کا یہ مکروہ فعل کس اچھائی کے زمرے میں آئیگا کہ اس میںاور دوسرے دہشت گردوں میں کسی قسم کی تمیز کی جائے جبکہ فرقہ ورانہ دہشت گردی سے ہی ملک کی سلامتی کے درپے بھارت اور اسکے ایجنٹوں کو دہشت گردی کے ذریعے اس ملک خداداد کی سلامتی کمزور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر وفاقی وزیر داخلہ کی یہی سوچ حاوی رہی تو پھر آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کا حکومتی اور عسکری قیادتوں کا عزم شاید ہی پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے مگر دہشت گرد اس ملک کے آخری شہری تک کو اپنے جنونی عزائم کی بھینٹ چڑھانے میں ضرور کامیاب ہو جائینگے۔ آج قوم اپنے منتخب وزیراعظم سے سراپا استفسار ہے کہ آیا وہ بھی اپنے وزیر داخلہ کے ’’اچھے انتہاء پسندوں‘‘ والے فلسفہ سے متفق ہیں اور کیا اس سوچ اور فلسفہ کی بنیاد پر دہشت گردوں کیلئے کھلی چھوٹ کا موقع فراہم کرکے ملک کی سلامتی کا تحفظ کیا جاسکتا ہے؟ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں آکر اس معاملہ میں قوم کو بہرصورت مطمئن کرنا چاہیے۔