قومی ترانہ کسی بھی قوم کی شناخت اور اسے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کرنے کا نام ہے۔اس کے الفاظ کوئی عام الفاظ نہیں بلکہ اپنے اندر جادوئی اثراور تاثیر رکھتے ہیں۔ قومی ترانہ کے ذریعے قوموں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے ۔ ہر ملک کا الگ قومی ترانہ ہے۔اس کی حیثیت گویا ایک الگ تشخص کی سی ہے جس سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہوتا۔ ہر اہم مواقع جب قومی جذبات کی ترجمانی مقصود ہو، قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔
پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کی سعادت مایہ ناز شاعر ابوالاثر حفیظ جالندھری کو حاصل ہوئی اور انہوں نے یہ قومی ترانہ لکھ کر اپنا نام ہمیشہ کیلئے پاکستان کے ساتھ جوڑ لیا۔ پاکستان کے قومی ترانہ میں آپ کو نرمی اور چاشنی، جوش و جذبہ اور زبردست شاعری بھی ملے گی۔ قومی ترانہ ہماری سربلندی کا نشان، قومی آزادی کی آواز اور ملک و ملت کی خیر و سلامتی کی دعا ہے ۔ قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900 ء کو ہندوستانی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم 1905 میں جالندھر کی جامع مسجد سے شروع کی اور قرآن مجید ناظرہ پڑھا۔ وہ 1907 میں مشن ہائی اسکول میں داخل ہوئے اور بعد ازاں گورنمنٹ ہائی سکول جالندھر میں داخلہ لیا۔1909 میں حصول علم کیلئے دوآبہ آریہ اسکول میں ایڈمشن حاصل کیا، یہیں سے ان کے دل میں جذبۂ حریت بیدار ہوا اور تحریک پاکستان میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ آپ قادر الکلام فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کے شاگرد تھے۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں فوج میں پبلسٹی آفیسر مقرر ہوئے۔ آپ کی ادبی کاوشوں کی ابتداء 1922 سے ہوگئی تھی۔ 1922 سے 1929 تک کے عرصے میں وہ متعدد ادبی جرائد کے ایڈیٹر رہے، جن میں نونہال، گلزار داستان، تہذیب نسواں، مخزن شامل ہیں۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’نغمہ زار‘‘ تھا جو 1935 میں شائع ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد افواج پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل آف مورالز اور امورکشمیر مقرر ہوئے ۔
قیام پاکستان کے وقت محب وطن شخصیات کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ پاکستان کا ایک الگ سے قومی ترانہ بھی ہونا چاہیے‘ جو دلوں کو گرما دے اور ہمارے الگ قومی تشخص کی دنیا بھر میں پہچان کا ذریعہ ہو۔ حکومت پاکستان نے 23فروری 1949ء کو ایس ایم اکرم کی نگرانی میں سردار عبدالرب نشتر، پیرزادہ عبدالستار، پروفیسر چکرورتی، چودھری نذیر احمد، ذوالفقار علی بخاری، اے ڈی اظہر، نسیم الدین اور حفیظ جالندھری پر مشتمل ایک9 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ ملک کے چیدہ چیدہ شاعروں اور موسیقاروں نے کمیٹی کو 723ترانے اور دھنیں ارسال کیں ‘ جنہیں جناب عبدالواحد خان رشیدی جمع کرتے رہے لیکن احمد جی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن کو پسند کیا گیا ۔ 21اگست 1949ء کو حکومت پاکستان نے قومی ترانہ کمیٹی کے زیر اہتمام ریڈیو پاکستان اور احمد جی چھاگلہ کی بنائی ہوئی دھن کو منظور کر لیا۔یہ دھن پاکستان نیوی کے بینڈ نے پی این ایس دلاور میں بنائی۔ وارنٹ آفیسر عبدالغفور اس کے بینڈ ماسٹر تھے ۔
حفیظ جالندھری کا لکھا قومی ترانہ حکومت پاکستان نے جنوری 1954ء میں منظور کر لیا اور 14اگست 1954ء کو اسے پہلی بار حفیظ جالندھری کی آواز میں ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا۔حفیظ جالندھری نے قومی ترانہ لکھنے میں چھ ماہ لگائے یہاں تک کہ اس کے ایک ایک لفظ پر غور کیا۔ پاکستان کے قومی ترانہ میں آپ کو نرمی اور چاشنی، جوش و جذبہ ، بہترین دھن اور زبردست شاعری بھی ملے گی۔ قومی ترانہ شاعری کی مخمس شکل میں ہے۔ اس میں کل پندرہ مصرعے ہیں۔ اسے ملک کے ممتاز گلوکاروںکی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ قومی ترانہ مرتب کرنے میں 21 آلات اور38ساز استعمال کیے گئے۔ پورا قومی ترانہ بجنے میں ایک منٹ بیس سیکنڈ لگتے ہیں۔پورے ترانے میں ’’کا‘‘ کے سوا اردو کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا گیا ۔ باقی تمام الفاظ فارسی کے ہیں۔ 14اگست 1955ء کو حکومت پاکستان نے حفیظ جالندھری سے قومی ترانے کے حقوق خرید لیے۔ قومی ترانہ کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کسی جگہ قومی ترانہ بج رہا ہو تو ہر پاکستانی شہری پر لازم ہے کہ وہ وہیں رک جائے ۔
حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا ۔ حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام لکھ کر اسلامی دور کی ابتدائی جنگوں کو نہایت پر اثر انداز میں نظم کا جامہ پہنانے کا آغاز کیا۔ جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔ انہوں نے اردو شاعری اور پاکستان کیلئے مثالی خدمات سر انجام دیں۔ آپ بیک وقت ایک غزل گو اور نعت گو شاعر بھی تھے۔ ان کی کچھ غزلیں اور نظمیں بھی ایسی ہیں جو اردو ادب میں زندہ جاوید ہوچکی ہیں۔اردو میں گیت کی روایت ڈالنے میں آپ کا نام آتا ہے۔ آپ کے بچوں کیلئے لکھے گئے گیتوں کے سات مجموعے شائع ہوئے ۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھی انھوں نے کئی پرجوش نظمیں لکھیں۔ 1965 کا وہ زمانہ تھا جب ان کی تخلیق اور ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ حفیظ جالندھری کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ہلالِ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے لیکن ان کی یاد ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی اور ان کا لکھا گیا قومی ترانہ ابد تک ارضِ پاک پر گونجتا رہے گا۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری کی آخری آرام گاہ گریٹر اقبالؒ پارک مینار پاکستان کے پہلو میں واقع ہے۔