قصور میں معصوم بچی "زینب" جس بربریت اور سفاکی کا شکار ہوئی اس کی خبروں نے ہر دردمند دل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جرم تو تعزیر اور گرفت کا متقاضی ہوتا ہے لیکن جرم کیوں سرزد ہوتا ہے ؟اس کی تہہ میں جائے بغیر معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں۔ قصور کے اس واقعے یا اسی نوعیت کے واقعات کے پس منظر پر غور کریں تو اہل دانش دو ہی نتیجے اخذ کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا کام صرف اور صرف وہی افراد کر سکتے ہیں جو نفسیاتی اور ذہنی مریض ہوں۔دوسرا پہلو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ کیا اس واقعے میںکوئی ایسا فرد یا افراد تو ملوث نہیں کہ جنہوں نے یہ عمل جدید یا نیو میڈیا "New Media"کے زیر اثر کیا ہے۔
پہلی نوعیت کے مجرم کی تلاش اور گرفت زیادہ مشکل نہ ہے،لیکن اگر اس واقعے میں دوسری نوعیت کا مجرم یعنی "نیو میڈیا" کے زیر اثر پروان چڑھنے والا فرد اس نوعیت کے جرم میں ملوث ہے تو اس کی ذمہ دار پوری ریاست ہو گی۔دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستانی معاشرت بھی سماجی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ایک نسل وہ جو کہPre Internet ہے اور دوسری وہ جو After Internet معاشرے کا متحرک حصہ بن رہی ہے۔انٹرنیٹ اور ورلڈ وائیڈ ویب یعنیWWW،1991سے کمرشل بنیادوں پر دنیا بھر میں استعمال ہونے لگے۔ گزشتہ بیس برس کے دوران انٹر نیٹ اس تیزی سے پھیلا کہ اب دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ہو جہاں اس کا گھریلو استعمال نہ ہو رہا ہو۔
انٹر نیٹ سے پہلے کے میڈیا کو آج کے دور میں "Old Media"قرار دیا جاتا ہے اس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا (ریڈیو اور ٹی وی)بھی شامل ہیں اولڈ میڈیا کو یکطرفہ ابلاغ بھی کہا جاتا ہے ۔یہ میڈیا دو طرفہ یعنی "Interactive"میڈیا نہ تھا۔ لیکن نیو میڈیا جسے انٹر نیٹ کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے وہ دوطرفہ ہے۔
نیو میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا ہر فرد کے سامنے کھل کر آ گئی ہے۔ اس میڈیا کے ذریعے آپ کسی بھی جگہ سے کسی بھی لمحے اپنی ترجیح کے مطابق افراد اور مواد تک دوطرفہ رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس دوطرفہ رسائی کے مثبت اور منفی دونوں پہلو بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ جس طرح ایٹمی صلاحیت کو انسانیت کی فلاح و بہبود یا تباہی دونوں طرح استعمال کیا جاسکتا ہے اسی طرح نیو میڈیا بھی ایک ایسا ہتھیار ہے جو تعمیری اور تخریبی دونوں اعتبار سے بڑا موثر ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں حکومتوں نے "نیو میڈیا" کے معاشرتی اثرات کے حوالے سے قومی سطح پر اس کا نہ تو جائزہ لیا اور نہ ہی اس کے اثرات کی کوئی مانٹرنگ اور اصلاح کی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔وفاقی سطح پر ایک وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی تو تشکیل دیدی گئی لیکن اس وزارت کا کام محض لائسنس کے ٹھیکے دے کر ملک بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نیٹ ورکنگ کو فروغ دینا رہ گیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے شاید ہی اس کی کوئی ترجیح ہو۔اسی طرح وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت سماجی بہبود، صحت، تعلیم اور وزارت مذہبی امور میںایسے ریسریچ ونگز کا فقدان ہے جو نیو میڈیا اور انٹر نیٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کے تدارک کے لیے قومی پالیسی تشکیل دینے میں رہنمائی کر سکیں۔
انٹر نیٹ یا نیو میڈیا کا پہلاحملہ انسان کی ذہنی استعداد اور خیالات پر ہوتا ہے۔یہی خیالات اور استعداد کسی بھی انسان اور معاشرے کی اخلاقی قدروں کو تشکیل دیتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک نے انٹرنیٹ اور نیو میڈیا کے اثرات پر ہر طرح کی تحقیق کر کے اصلاحی لائحہ عمل طے کر کے اس پر عمل در آمد بھی شروع کر دیا ہے،لیکن ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے وہاں اب تک نیو میڈیا کے معاشرتی اثرات پر مربوط تحقیق اور رہنمائی کے لیے غالباً سوچا تک نہیں گیا۔آج پاکستان کے ہر گھر کا مسئلہ ہے کہ بچوں کو کس حد تک نیو میڈیا تک رسائی دی جائے۔ یا ان کو اس کے غیر ضروری استعمال سے کس طرح روکا جائے۔ موبائل فون،فیس بک، وٹس ایپ اور انٹرنیٹ گیمزوغیرہ نے بچوں اور بڑوں سبھی کو اس قدر گرفت میں لے لیا ہے کہ گھریلو اور سماجی زندگی کا پرانا تصور تقریباً متروک ہو تا جا رہا ہے۔
خاص طورپر کم عمر بچے اور معاشرتی گھٹن اور مسائل کا شکار نوجوان لوگ نیو میڈیا کی وجہ سے نفسیاتی امراض اور جنسی پراگندگی کا شکار ہو رہے ہیں لیکن صد افسوس کہ اس طرف نہ تو صاحب اقتدار افراد،انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ توجہ دے رہے ہے اور نہ ہی ہماری سماجی تنظیمیں اور میڈیا اس طرف کوئی ترجیحی قدم اٹھا رہے ہیں۔ اس نیو میڈیا کے منفی اثرات کے حوالے سے نہ تو تعلیمی نصاب اور نہ ہی والدین اپنی اولاد کو آگاہ کر رہے ہیں۔جب ایسی صورتحال ہو تو "زینب"جیسی معصوم بیٹیوں کو "سفاک درندوں"سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟یہ ہے وہ سوال کہ جس کا جواب پوری قوم کو ڈھونڈنا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ اپنی اولاد کو وہ تربیت مت دو، جو تمھیں دی گئی ہے۔ کیونکہ وہ تمھارے زمانے کے لیے پیدا نہیں کی گئی۔آپ نے تربیت سے منع نہیںکیا لیکن رہنمائی کی ہے کہ اپنی نسل کو جدید تربیت دو۔کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟
ع… صلاح عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے!