نواز شریف، شیخ مجیب الرحمان اور انجینئرڈ الیکشن

کچھ روز قبل میاں نوازشریف نے اسلام آباد پنجاب ہاؤس میں اپنے تحریری بیان میں اپنے دلی دکھ بھولنے، انتخابات کے انجینئرڈ ہونے، طور طریقے بدلنے اور پھر شیخ مجیب الرحمان کے محب وطن پاکستانی ہونے کی بات کر کے اپنا مافی الضمیر پوری طرح واضح کر دیا۔ اگر کسی کو کوئی شبہ تھا تو وہ دور ہو گیا۔ کیونکہ تحریری بیان سوچ سمجھ کر اور نتائج سے باخبر ہونے کا اشارا دیا کرتا ہے۔ میاں نواز شریف کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریری وضاحت اور بیان اور ثبوت دینے کا معاملہ انکے گلے پڑ رہا ہے۔ اور پورا خاندان اب تک کوئی خاطر خواہ ثبوت نہیں دے سکا جبکہ ایک بیانیہ ضرور سامنے آیا ہے۔ اس بیانیہ کی بنیاد پر وہ اگلے انتخابات میں جانا چاہتے ہیں۔ اس کے نتائج کیا ہوں گے یہ ابھی زیر بحث نہیں تاہم ملک کے معاشی طور پر کمزور ترین اور تزویراتی طور پر سب سے اہم صوبہ میں انکی جماعت نے علم بغاوت بلند کر دیا ہے اور نواب ثناء اللہ اب کراچی جا چکے ہیں۔ وزیراعظم عباسی نے اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے بلوچستان کے معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ اگر ملک کا وزیراعظم بے بس ہے تو ہمارا خدا ہی حافظ…

ہمارے ملک میں انتخابی سیاست، انتخابات، نتائج کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہے۔ 1970ء کے انتخابات نے ملک توڑا، 77ء کے انتخابات نے مارشل لا لگوایا، 85ء کے انتخابات میں صدر ضیاء الحق نے چھوٹی چھوٹی تانگہ پارٹیوں کے ذریعہ بے نظیر بھٹو اور ایم آر ڈی سے بائیکاٹ کروا کے غیر جماعتی انتخابات کروا کر ’’مثبت‘‘ نتائج حاصل کئے۔ ان ’’مثبت‘‘ نتائج کے نتیجہ میں محمد خان جونیجو وزیراعظم اور میاں نوازشریف وزیراعلیٰ بن گئے۔ محمد خان جونیجو مرحوم نے اپنی نامزدگی کے پندرہ منٹ کے اندر ہی اندر ملک سے مارشل لا ختم کرنے کے مسئلہ پر ضیاء الحق سے اختلاف کیا۔ ضیاء الحق نے صورتحال کو اپنے لئے غیر مناسب خیال کرتے ہوئے شریف النفس محمد خان جونیجو پر کرپشن کے الزامات لگائے حالانکہ معاملہ اوجڑی کیمپ کا تھا۔ حکومت ٹوٹی اور میاں نوازشریف نگران وزیراعلیٰ ہو گئے۔ اپنی ہی جماعت کے صدر سے بغاوت کی۔ جنرل حمید گل مرحوم کے مطابق انہوں نے سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے آئی جے آئی بنائی۔ انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ سب ٹھیک تھا بے نظیر وزیراعظم اور میاں نوازشریف وزیراعلیٰ بن گئے۔ آٹھویں ترمیم کا استعمال ہوا اور بے نظیر آئی ایس آئی پر الزام لگا کر گھر چلی گئیں۔ انتخابات میں عوام کے پاس کوئی چائس نہ تھی ماسوائے آئی جے آئی کو ووٹ دینے کے، میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ پہلا اختلاف انہوں نے محمد خان جونیجو سے کیا۔ پارٹی تقسیم ہوئی پھر اس طرح جوڑی گئی کہ ٹوٹی رہتی تو اچھا تھی۔ انہوں نے بے نظیر کو سکیورٹی رسک قرار دیا اور پھر صدر غلام اسحاق خان کا پیمانہ صبر اتنا لبریز ہوا کہ میاں نوازشریف کو جنرل وحید کا کڑ کے کہنے پر استعفیٰ دینا پڑا۔ اس سے قبل جنرل آصف نواز سے کئی دفعہ بد مزگی ہو چکی تھی۔ پھر بے نظیر بھٹو کرشماتی قوتوں کے ذریعہ ووٹ کی کوئی دوسری چائس نہ ہونے کے باعث وزیراعظم بن گئیں۔ یہ 1993ء کا واقعہ ہے ملک کی سیاسی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ صدر فاروق لغاری تنگ آچکے تھے بقول سابق سپیکر گوہر ایوب خان ’’26فروری 1996ء کو نوازشریف نے مری سے اسلام آباد آتے ہوئے میرے ساتھ ملاقات کی۔ انہوں نے فون پر مجھ سے کہا کہ آپ اپنی گاڑی میں مری آئیں جب وہاں ہماری گاڑیاں کراس کریں تو آپ میری گاڑی میں آ جائیں مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ 17 میل کے مقام پر گاڑیوں نے کراس کیا۔ میں نوازشریف کی گاڑی میں بیٹھ گیا اور ان کا ڈرائیور میری گاڑی میں چلا گیا۔ گاڑیوں کی رفتار انتہائی سست تھی۔ نواز شریف نے مجھے کہا کہ صدر نے شاہد حامد کے ذریعہ مجھ سے رابطہ کیا ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں ان کو میری مدد چاہئے۔ بر طرفی کے بعد مقررہ مدت میں انتخابات ہونگے جبکہ انہوں نے انکشاف کیا کہ بے نظیر بھٹو نے بھی ان سے رابطہ کیا ہے اور وہ صدر کے مواخذہ کیلئے ہماری مدد چاہتی ہیں۔ اس سلسلہ میں دونوں جماعتوں کو ضابطہ اخلاق طے کرنا ہوگا تاکہ سیاسی اور جمہوری قوتوں کے استحصال کو روک دیا جائے۔ نوازشریف نے تاکید کی کہ ہر بات ہم دونوں کے درمیان راز ہے‘‘ ( سی او ڈی اسی کا نتیجہ تھا) بے نظیر بھٹو کا 5 نومبر 1996ء کو 58 (2) بی کے تحت دھڑن تختہ ہو گیا۔ بقول گوہر ایوب خان نتائج اور بھاری مینڈیٹ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے لیے توقعات سے بہت زیادہ تھا۔
ان انتخابات کے دوران معراج خالد مرحوم نگران وزیراعظم تھے۔ انکی کابینہ کے پاس یہ بات زیر غور تھی کہ بنکوں کے مقروض اور نادہندگان کو انتخابات نہ لڑنے دئیے جائیں۔ احتساب سیل کے انچارج وزیر مملکت نجم سیٹھی تھے کابینہ اپنا اجلاس ادھورا چھوڑ کر ایوان صدر چلی گئی اور نادہندگان کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ نجم سیٹھی کی یاد اللہ ان کے کام آتی رہی کبھی کسی رنگ میں اور کبھی دوسرے کسی رنگ میں آج کل کرکٹ بورڈ کے رنگ میں۔
وزیراعظم نے صدر، چیف جسٹس سجاد علی شاہ سمیت آرمی چیف کو گھر بھیج دیا۔ مینڈیٹ بہت ہی بھاری ثابت ہوا۔ وزیراعظم اپنے ہی نامزد چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کو بھی فارغ کرنا چاہتے تھے اور وہ نتیجہ بھی الٹا نکلا۔ پرویز مشرف اور نوازشریف ایک دوسرے کے خیالات اور حکمت عملی سے بخوبی واقف تھے۔ ٹائمنگ کی بات تھی عمل اور رد عمل ہمارے سامنے ہے۔ پرویز مشرف کا NRO اور میاں نوازشریف کا سی او ڈی بھی ہمارے سامنے ہے۔ بات اگر انجینئرڈ الیکشن کی ہوگی تو اور بہت کچھ سامنے آئے گا۔ امریکہ برطانیہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جانے کون کون کیا کیا کہے گا اور بلی کے گلے گھنٹی کون باندھے گا۔
جہاں تک شیخ مجیب الرحمان کی حب الوطنی، ایثار، محبت، اور بنگلہ بندھو بننے کی ہے تو یہ بات درست ہے کہ شیخ مجیب الرحمان نے کبھی ایسی سیاست نہ کی تھی کہ اس کو انجینئرڈ انتخابات کا سہارا لینا پڑتا، حسین شہید سہروردی کے بارے ایڈمرل سروہی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا وہ پاکستان سے محبت نہیں کرتے تھے بلکہ غدار تھے۔ شیخ مجیب الرحمان انکے زیر سایہ پلے۔ اگرتلہ سازش بالکل ہو رہی تھی۔ اس بارے میں شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی حسینہ واجد بھی کہہ چکی ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے خلاف شیخ مجیب الرحمان سازش کر رہے تھے۔ ایوب خان نے اس کو گرفتار کیا۔ مقدمہ زیر سماعت تھا۔ اے کے بروہی شیخ مجیب کا دفاع کر رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے شیخ مجیب الرحمان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ایوب خان نے شیخ مجیب کو غداری کے مقدمہ میں بوجوہ دباؤ چھوڑ دیا۔ بھٹو خود کانفرنس میں شریک نہ ہوئے۔
مجیب الرحمان کے چھ نکات، بنگلہ دیش میں 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی غنڈہ گردی پولنگ سٹیشن پر قبضہ، پھر خانہ جنگی، مکتی باہنی کا قیام، بھارت سے ایک لاکھ لوگوں کو تربیت دلوانا، خواتین کی بے حرمتی‘ قصور میں تو 12 بچیاں اس کا نشانہ بنی مگر بنگلہ دیش میں مکتی باہنی نے ہزاروں بہاری اور غیر بنگالی خواتین کی عصمت دری کر کے قتل کیا کوئی شک ہو تو قطب الدین عزیر کی کتاب ’’خون اور آنسوؤں کا دریا‘‘ پڑھ لی جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین کی کتاب ’’شکست آرزو‘‘ بھی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے مقام تک پہنچانے میں مددگار وہ عناصر تھے جو مغربی پاکستان میں دانش وری کا زعم رکھتے ہوئے خود کو سُرخا کہہ کر اسلامی پاکستان سے بغض رکھتے تھے ان کا بیر آج بھی قائم ہے۔ وہ پاکستان کے اسلامی ملک ہونے سے بھی چڑتے ہیں۔ ادھر تم اور ادھر ہم کا نعرہ اسی کلاس اور سوچ نے لگایا تھا۔ یہ سرخ ایشیا کا خواب دیکھنے والے، قائداعظم سے بھی بغض رکھنے والے، آج بھی متحرک ہیں۔ ڈر ہے کہ وہ میاں نوازشریف اور مسلم لیگ کو ایسی جگہ نہ لے جائیں جہاں سے واپسی کا سفر بھی ممکن نہ رہے۔ ابھی کرچیاں سمیٹی جا سکتی ہیں۔ میاں نواز شریف کو یہ بات باور کر لینی چاہئے کہ بنگلہ دیش میں پنجاب کے خلاف نفرت پیدا کی گئی تھی اور بھارتی وزیراعظم مودی تو اس بات کا اعتراف کر چکے کہ بنگلہ دیش بھارت نے بنایا۔ شیخ مجیب بھارتی آلہ کار تھا۔ وہ ہو گا کبھی محب وطن۔ وہ تو چھ نکات کو بھی حتمی بات نہ کہہ رہا تھا۔ مگر خود اپنا ہی شکار ہوا تھا۔ وہ لوگ جو اس کیلئے جان دینے کو تیار تھے، انہوں نے فوجی چھاؤنی پر قبضہ کر کے‘ اسلحہ لوٹ کر‘ جو خون خرابہ کیا تھا۔ انہی میں سے بعض نے شیخ مجیب کو اسکے گھر میں گولیوں سے بھون دیا تھا۔ وہاں پاکستان سے محبت آج بھی زندہ ہے مگر شیخ مجیب نہیں۔ وہاں بھارت کی بالادستی ہے اور پاکستان سے محبت کرنیوالے پھانسی کے مستحق ٹھہرے ہوئے ہیں۔
میاں نواز شریف نے 1996ء میں اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کریں گے۔ اسلام آباد میں چودھری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر دہلی میں تعینات امریکی سفیر‘ اسلام آباد میں امریکی سفیر نے میاں نواز شریف کیساتھ اس بارے ملاقات کی تھی۔ سرتاج عزیز‘ عابدہ حسین بھی موجود تھیں۔ واجپائی نے میاں صاحب کی جیت پر مبارکباد کا پیغام دیا جواباً ان کو دورے کی دعوت دی گئی۔ لاہور کی سڑکوں پر احتجاج بھی ہوا۔ قریب تھا کہ پولیس قاضی حسین اور مرحوم کو شیلنگ سے ہی مار دیتی۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں کرتے رہیں گے۔ مگر شیخ مجیب الرحمن کی حب الوطنی، ممکن ہے کل کے سرخوں کو آج بھی نظر آ رہی ہے۔ مگر ایسے اقدام کی نہ تو اب کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی برداشت کریگا۔ حالات میں سنگینی صورتحال کو مزید ابتر تو کر سکتی ہے مگر یہ اب اپنا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ پانی اپنا راستہ خود متعین کرتا ہے اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ مسائل مذاکرات‘ تحمل بردباری‘ اخلاص‘ نیک نیتی‘ ایمان داری کے ساتھ حل ہونگے۔ فرد اور ریاست کے تصادم میں تو ریاست نہیں ہار سکتی۔ ہاں اگر کوئی سازش ہو چکی ہے تو چودھری نثار کو چاہئے کہ بات سامنے لائیں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھول جانا اور تلخ باتوں اور واقعات کو بھول جانا اچھا ہے۔ مگر پھر بھی تلخی جاتی نہیں۔ کسک رہ ہی جاتی ہے۔ زخم بھر جاتے ہیں مگر نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ حکمران کا ظرف بڑا ہو تو راہ نجات تلاش کر لیتا ہے بصورت دیگر قوم اپنے زخم چاٹنے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ ابھی وقت ہے مگر جلد گزر جائے گا۔ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے یہ سب کچھ تب بتاتی ہے جب شخصیات اور واقعات ماضی کا حصہ اور تاریخ میں گم ہو جاتے ہیں لہٰذا تصادم کا راستہ چھوڑ کر معاملات کو آگے بڑھائیں تاکہ تاریخ میں گم ہونے کی بجائے اس کا بہتر انداز میں حصہ بن سکیں۔

ای پیپر دی نیشن