’’قومی ترانہ نہ تو خالی شعر و شاعری ہے اور نہ عام بازاری موسیقی‘ ملت کو زندگی دینے والی روح کا اظہار الفاظ میں ہوتا ہے۔ الفاظ مناسب وزن اور اعتدال کے ساتھ مرتب ہو کر وہ نغمۂ حیات بنتے ہیں جو اس قوم و ملت کا مقصود ہے۔ الفاظ کی یہ موزونیت’’دھن‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ ’’دھن‘‘ سازوں سے ہم آہنگ ہو کر ہر فرد میں ملی جلی زندگی کی اُمنگ قائم رکھتی اور پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔ الفاظ معنی لاتے ہیں۔ موسیقی ان معانی کو کانوں کے ذریعے دلوں تک پہنچانے کا خوشگوار ذریعہ ہے۔ دھن اور الفاظ دونوں کو بیک وقت فوجی اور شہری سازوں کی آواز سے ہم رنگ و ہم آہنگ کر کے منصہ شہود پر لانا ضروری ہے۔ شاعر کو حسنِ صوت یعنی الفاظ کی اپنی دلکش موسیقی سے معمور ہونا چاہئے نیز اس کا کن رس ہونا اور ساتھ ہی دل و جاں کے ساتھ ملت کی روح سے ہم نفس ہونا لازم ہے۔ شاعر کی یہ تینوں صلاحیتیں اور تخلیقی قوتیں جب تک بروئے کار نہ آئیں‘ قومی ترانہ نہیں بن سکے گا۔‘‘ یہ الفاظ قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کے ہیں جو انہوں نے دسمبر 1947ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دست راست اور اس مملکت خداداد کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سے راولپنڈی میں ملاقات کے دوران ادا کئے۔ تب غالباً ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ایک دن پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کا شرف انہی کو حاصل ہو گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں شاہنامۂ اسلام بھی تخلیق کروایا۔ ان کی دیگر تصانیف بھی اُردو زبان و ادب میں ممتاز مقام رکھتی ہیں تاہم انہیں شہرتِ دوام وطن عزیز کا قومی ترانہ لکھنے سے ہی حاصل ہوئی۔
قومی ترانہ کسی بھی ملک کا امتیازی نشان ہوتا ہے‘ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ ترانہ اس ملک میں بسنے والی قوم کی آرزوئوں‘ تمنائوں‘ وطن سے محبت اور اپنی آزادی پر اظہارِ تفاخر سے مزین ہو۔ حفیظ جالندھری دراصل سید الانبیائؐ کے عشق میں سرتاپا سرشار‘ اس مملکت خداداد کے مخلص خدمت گزار اور اسلامی فکر و نظر کے حامل اعلیٰ پائے کے شاعر تھے‘ لہٰذا ان کا تخلیق کردہ ترانہ ہمارے اسلامی تشخص اور ملی امنگوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ ترانہ پلک جھپکتے تخلیق نہیں ہو گیا بلکہ اس کی خاطر حکومت پاکستان سالہا سال کوششیں کرتی رہیں۔ اس مقصد کے لئے وفاقی وزیر سردار عبدالرب نشتر کی سربراہی میں ایک نو رکنی ترانہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے دسمبر 1947ء میں اخبارات میں اشتہارات شائع کرائے کہ ’’دس ہزار روپیہ اس شخص کو انعام دیا جائے گا جو پاکستانی قومی ترانے کے الفاظ اور دھن دونوں تیار کردے لیکن اگر کوئی شاعر محض الفاظ میں قومی ترانہ تخلیق کرے اور وہ منظور ہوجائے لیکن اس کی دھن کوئی دوسرا موسیقار بنائے تو ان دونوں کو پانچ پانچ ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔‘‘
ملک و بیرون ملک سے 723شعراء نے اس مقابلے میں حصہ لیا۔ ترانہ کمیٹی کے لئے اتنے زیادہ ترانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب آسان نہ تھا۔ چنانچہ سالہا سال تک غور و فکر کیا جاتا رہا۔ بالآخر محمد علی بوگرہ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں حفیظ جالندھری کے لکھے ترانے کو منظور کر لیا گیا جس کی دھن نامور موسیقار احمد عبدالکریم چھاگلہ نے ترتیب دی تھی۔ 7اگست 1953ء کو اس ترانے کی صدا بندی ہوئی جس میں معروف گلوکار احمد رشدی‘ زوار حسین‘ اختر عباس‘ غلام دستگیر‘ انور ظہیر‘ وصی علی‘ نسیمہ شاہین‘ رشیدہ بیگم‘ نجمہ آرائ‘ کوکب جہاں اور شمیم بانو نے حصہ لیا اور اس میں کل 38ساز استعمال ہوئے۔ ساز و آواز سے ہم آہنگ ہوکر یہ ترانہ 13اگست 1954ء کو پہلی بار ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو ہر پاکستانی خوشی سے سرشار ہوگیا۔ یہ ایک نظریاتی ترانہ ہے جو اپنے پڑھنے اور سننے والوں کے خون کو گرماتا ہے۔ ہر کوئی اس کا مطلب سمجھتا ہے اور اس کی بدولت اسے اپنے اسلامی تشخص کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ترانوں میں ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اس ترانے کی خالق شخصیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ پروگرام نشر اور شائع کریں تاکہ ہماری نسل نو کو ان کی حیات و خدمات سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور ہر سال حفیظ جالندھری کے یوم ولادت کے سلسلے میں ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی نشست منعقد کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز منعقدہ نشست کی صدارت چیئرمین زکوٰۃ و عشر کمیٹی پنجاب جسٹس(ر) ملک اختر حسین نے کی جبکہ مہمان خاص چیئرمین قومی ترانہ فائونڈیشن پروفیسر ڈاکٹر عزیز احمد ہاشمی تھے جو بطور خاص راولپنڈی سے اس نشست میں شرکت کیلئے تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘سابق صدر مملکت و چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ محترم محمد رفیق تارڑ نے اپنے پیغام میں کہا کہ ابوالاثر حفیظ جالندھری کی قومی و ادبی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ قومی ترانے کی تخلیق اُن کا ایسا شاندار کارنامہ ہے جو پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں تاقیامت حب الوطنی کے جذبات اُبھارتا رہے گا۔
جسٹس( ر) ملک اختر حسین نے کہا کہ یہ ترانہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہم کیا تھے، کیا ہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہیے؟ پروفیسر ڈاکٹر عزیز احمد ہاشمی نے کہا کہ یہ ترانہ قیام پاکستان کے مقاصد کا ترجمان ہے اور قومی ترانہ فائونڈیشن اس کی اہمیت اُجاگر کرنے کی خاطر شب و روز کوشاں ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے کہا کہ حفیظ جالندھری صاحب کو نہ صرف پاکستان بلکہ آزاد کشمیر کا قومی ترانہ بھی لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے اس دور میں دہریت اور اشتراکیت کا جم کرمقابلہ کیا جب یہ تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔نشست کے دوران ارشد عزیز نے حفیظ جالندھری کی اپنی آواز میں ریکارڈ شدہ کلام بھی سنوایا اور مرحوم کے یوم ولادت کی خوشی میں کیک بھی کاٹا گیا۔نشست کے آغاز میں عالمی شہرت یافتہ نعت خواں الحاج حافظ مرغوب احمد ہمدانی نے حفیظ جالندھری کا نعتیہ کلام پیش کیا جسے سن کر حاضرین پر رقت طاری ہو گئی۔ قبل ازیں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘ قومی ترانہ فائونڈیشن کے عہدیداران اورمون پبلک سکول راوی روڈ لاہور کے طلبا اور اساتذہ نے ابوالاثر حفیظ جالندھری کے مزار پر حاضری کے بعد فاتحہ خوانی کی۔
ابوالاثر حفیظ جالندھریؒ کا یوم ولادت
Jan 14, 2018