عاطف رانا کا قلندرانہ عزم!!!!!

پاکستان سپر لیگ کے فرنچائز مالکان کو اب تک مالی خسارے کا سامنا ہے۔نتائج کے اعتبار سے آخری نمبر پر آنے والی لاہور قلندرز خسارے کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔ مالی خسارے کے باوجود قلندرز کی سال بھر جاری رہنے والی سرگرمیوں میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ یہ وہ فرنچائز ہے جو سارا سال پاکستان سپر لیگ کو زندہ رکھتی ہے۔ کبھی ڈیویلپمنٹ پروگرام کے ذریعے، کبھی ٹرائلز، کبھی اندرون ملک میچز تو کبھی نوجوانوں کو بیرون ملک کھیلنے کے مواقع فراہم کر کے انہیں متحرک رکھتی ہے۔ پاکستان سپر لیگ کی دیگر فرنچائز کھیل کی سرگرمیوں میں لاہور قلندرز سے بہت پیچھے ہیں۔قلندرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عاطف رانا کا کہنا ہے کہ" ہم نے اپنی فرنچائز کو دنیا کا مشہور برانڈ اور پاکستان کرکٹ کو انڈسٹری بنانا ہے۔ ایک طرف ہم نے کرکٹ میں کاروبار کیا ہے اس میں نقصان بھی ہوتا ہے ممکن ہے آئندہ برسوں میں بھی ایسا ہو لیکن پلیئرز ڈیویلپمنٹ پروگرام جاری رہے گا۔ تو دوسری طرف ہم لیگ کا حصہ اس عزم کے ساتھ بنے تھے کہ ملک کے نوجوانوں کو کھیل کے یکساں اور بہترین مواقع فراہم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔ آج باجوڑ کا معاذ خان اور کشمیر کا سلمان ارشاد دنیا کے سامنے کرکٹ کھیلتے ہیں تو ساری دنیا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ ہم پرامن اور کھیل سے محبت کرنیوالے لوگ ہیں۔قلندرز وہ نہیں ہیں جو لیگ کا ایک مہینہ اپنا دفتر کھولیں پھر بند کر کے دیگر کاموں میں لگ جائیں۔ہم سارا سال اس کھیل کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسے دنیا کا مشہور برانڈ بنانا ہے۔ اپنے دوسرے بزنس کے لیے کرکٹ سے فائدہ حاصل نہیں کرنا بلکہ لاہور قلندرز کے پلیٹ فارم سے ملک کے نوجوانوں کو صحت مند ماحول فراہم کرنا ہے۔ ہم نے مالی خسارہ خوشدلی سے ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر قبول کیا ہے۔ اگر ملک کے طول و عرض میں پھیلے ٹیلنٹ کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع مل رہے ہیں اور وہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں تو اس سے بڑا منافع کیا ہو گا کہ میرے ملک کا جھنڈا بلند ہو رہا ہے، پاکستان کا نام روشن ہو رہا ہے۔ آج پی ایس ایل سارا سال خبروں میں رہتی ہے تو اسمیں لاہور قلندرز کا اہم کردار ہے۔ ہم سال بھر اسے زندہ رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ لاہور قلندرز پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا برانڈ بنے گا۔ یہ ساری لیگ پاکستان میں ہو گی اور ہمارے نوجوان قلندر دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کریں گے۔جہاں تک تعلق پاکستان سپر لیگ میں پیسوں کی تقسیم کی انتظامی خرابی کا ہے اسمیں بہتری آنی چاہیے۔ اگر کرکٹ بورڈ انتظامیہ سے غلطی ہوئی ہے تو اسکو ٹھیک کیا جا سکتا ہے اور پاکستان سپر لیگ کے بہتر مستقبل کے لیے اسے ٹھیک ہونا چاہیے۔ پی ایس ایل کے مقابلے دبئی میں ہوتے ہیں جبکہ قلندرز دنیا میں کھیل کر سبز ہلالی پرچم کو بلند کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ آسٹریلیا میں پاکستان ٹیم کتنے عرصے بعد دورہ کرتی ہے جبکہ ہمارا ڈیویلپمنٹ سکواڈ ہر سال جاتا ہے۔
پاکستان سپر لیگ کا آغاز انقلابی قدم تھا۔ اس سے ملکی کرکٹ میں نئے دور کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا سفر شروع ہوا۔ اس ایونٹ کے ذریعے بیرونی دنیا میں پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی، دیگر بورڈز کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوئے، غیر ملکی کھلاڑیوں کا خوف کم ہوا اور اب ہم پاکستان سپر لیگ کے آٹھ میچز کی میزبانی کرنے جا رہے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ کا حصہ بننے والے تمام فرنچائز مالکان کا کردار قابل تعریف ہے کیونکہ انہوں نے مشکل وقت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا ساتھ دیا۔ لاہور قلندرز کے پلیئر ڈیویلپمنٹ پروگرام سے کئی محروم کرکٹرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے پی ایس ایل بھی خبروں میں رہتی ہے۔جتنا کام ایک فرنچائز اپنے برانڈ کی شناخت اور ساکھ کے لیے کر رہی ہے کیا پاکستان کرکٹ بورڈ ایونٹ کی ساکھ اور اسکی اہمیت میں اضافے کے لیے کرتا ہے۔ اس کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس

ای پیپر دی نیشن