سیاست کے آبگینوں میں نئی خراشیں پڑنے لگیں۔ جہاں دو برتن ہوں وہ کھڑکتے ہی ہیں۔ یہاں تو شش جہات ’’پانڈے‘‘ موجود ہیں۔ پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی، ن لیگ ، ایم کیو ایم ، جے یو آئی (ف) جماعت اسلامی…یہ چھ کی چھ پلیٹیں آپس میں ٹکراتی رہتی ہیں بلکہ ایک پلیٹ ن لیگ کے تو چھ ماہ پلیٹلس بھی گرتے رہے ہیں لیکن لندن جاتے ہی ان پلیٹلس میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان میں سیاست کی سات دیگیں دم پررہتی ہیں یعنی پی ٹی آئی ، پیپلز پارٹی ، ن لیگ ، ایم کیو ایم، جے یو آئی (ف) جماعت اسلامی اور اے این پی۔ ان سات دیگوں میں کسی دیگ کے اندر پلائو، کسی میں زردہ اور کسی میں قورمہ پکتا ہے۔ کسی میں کھچڑی پکتی ہے، کسی میں دانے بُھونے جاتے ہیں تو کسی میں چائے اور کسی میں صرف پانی اُبلتا ہے۔ آجکل ن لیگ کی دیگ میں مُرغ پلائو کی جگہ چھولے چاول پک رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی دیگ میں زردہ بنتا تھا۔ آجکل گڑ کے چاولوں پر گزارہ ہو رہا ہے۔ ایم کیوایم نے ہرحکومت میں کھچڑی پکائی ہے۔ پی ٹی آئی کی دیگ میں بائیس سال سے سُوپ ابالا جا رہا تھا لیکن آجکل پی ٹی آئی کی دیگ میں دیسی بکروں اور مرغوں کا قورمہ پک رہا ہے۔ جماعت اسلامی کی دیگ میں ہمیشہ یخنی، چائے پکتی رہی ہے۔ آجکل جوشاندہ پک رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی جو دیگ پکا رکھی ہے اس میں آجکل روپوں، دیناروں، ریالوں، ڈالروں کا قورمہ پک رہا ہے۔ انتہائی بیمار اور لاغر اسحاق ڈار نے لندن کی ٹھنڈی فضائوں سے انتہائی گرم بیان داغا ہے کہ ایک سال کے اندر قرضوں میں 7 ہزار 6 ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سترہ ماہ میں جن چھ جگہوں سے مسلسل رقوم وصول ہوئی ہیں۔ اُن میں سعودی عرب، چین اور آئی ایم ایف کی طرف سے ریال، ین اور ڈالروں کی بارش ہوئی ہے۔ دوسری طرف شبر زیدی، حفیظ شیخ اور حماد اظہر کی بے رحمانہ اور عوام دشمن پالیسیوں سے پاکستانیوں کا خون ہی نہیں، پسینہ بھی نچوڑ لیا گیا ہے۔ اگر یہ حکومت ساڑھے تین سال مزید قائم رہ گئی تو پاکستانیوں کے جسم پر صرف ہڈیاں رہ جائیں گی۔ یہ گوشت خود حکومت عوام کا گوشت ہی نہیں ، کھال بھی کھا جائے گی۔ عوام کو اپنی ہڈیاں بھی ایلفی سے جوڑ کر رکھنی پڑیں گی کیونکہ موجودہ حکومت وام کی ہڈیوں سے گودا بھی نکالنے کا پروگرام طے کر چکی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ ہزاروں ارب ڈالر، سینکڑوں ارب ریال ، درجنوں ارب ین اور کھربوں روپوں کے ٹیکس وصولیوں کے بعد بھی موجودہ حکومت کا نہ پیٹ بھر رہا ہے اور نہ ہی نیت۔ ابھی حال ہی میں چھ ماہ تک لاہور کی سڑکوں پر جو پیچ ورک کرنے کے لیے پورا لاہور موہنجو داڑو اور ہڑپہ بنایا گیا تھا۔ پورے لاہور نے چھ ماہ تک منوں مٹی کھائی تھی اور اپنی نئی نکور گاڑیاں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر برباد کی تھیں۔ ان کی محض پیوند کاری چھ ماہ میں کی گئی تھی۔ ابھی پنجاب حکومت سے پوچھیں تو اربوں روپے کا نام نہاد خرچہ بتائیں گے۔ صورت یہ ہے کہ ان نئی نویلی تعمیر شدہ سڑکوں کا معیار یہ ہے کہ تقریباً آدھی سڑکوں میں گڑھے پڑ چکے ہیں۔ صرف دو ماہ بعد یہ سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹ گئی ہیں۔ صرف ایک سال بعد یہ سڑکیں کھنڈرات میں بدل جائیں گی۔ موجودہ حکومت کے کام کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اربوں کھربوں ڈالر ملنے کے بعد عوام پرجو چند ہزار روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ اُن میں بھی کتنا فتور ہے۔ ملاوٹ اور گراوٹ کی کیا حالت ہے۔ ہرچیز عوام کی پہنچ سے دُور ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم نے یوٹیلٹی سٹورز پر بڑے زور و شور سے ریلیف پیج کا اعلان کیا لیکن یوٹیلٹی سٹورز پر کسی ایک آدمی کو بھی ایک روپے کا ریلیف نہیں ملا بلکہ حقائق یہ ہیں کہ یوٹیلٹی سٹورز ویران اور اُجاڑ پڑے ہیں۔ وہ یوٹیلٹی سٹورز جہاں گہما گہمی ہوتی تھی۔ آج وہاں الو بول رہے ہیں۔ عوام نوحہ کناں ہے۔ صرف ماتمی لباس پہننا باقی رہ گیاہے۔ اس پر وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سکون تو صرف قبر میں نصیب ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ادھورا اور نامکمل علم خطرناک ہوتا ہے۔ کون کہتا ہے کہ مر کر قبر میں سکون نصیب ہوتا ہے۔ اسلا م کی تو فلاسفی یہ ہے کہ وہاں منکر نکیر اعمالوں کا حساب لینے پہنچ جاتے ہیں اور زندگی بھر جس نے جو کیا ہوتا ہے۔ قبر میں اس کا عذاب دینا پڑتا ہے۔
وزیر اعظم کی پالیسیاں بھی بدلتی رہتی ہیں اور بیان بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ق لیگ بھی خود کو حکومت سے پرے پرے رکھتی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی تو باقاعدہ مذاق اڑاتی ہے۔ ایم کیو ایم بھی تمسخر اڑانے سے باز نہیں آتی۔ ایم کیو ایم جس کی اس وقت پوزیشن اتنی مضبوط نہیں لیکن انہوں نے وفاقی کابینہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی اس وقت تنِ تنہا کھڑی ہے اور ایم کیو ایم کے گِٹے گوڈوں کو ہاتھ لگا کر منتوں پر اتری ہوئی ہے۔ حکومت گرنے کا وقت آ چکا ہے۔ جو برتن خالی ہوتا ہے وہ کھڑکتا بھی ہے اور آسانی سے لُڑھک بھی جاتا ہے۔