لاہور( اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرآئینی قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے وقت آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، شکایت درج کرتے وقت قانون کو مدنظر نہیں رکھا گیا، عدالت نے کریمنل لاء سپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 9 کوبھی غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ترمیم کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جا سکتا، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہرعلی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف درخواست پریہ فیصلہ سنایا۔ بنچ میں جسٹس مسعود جہا نگیر اور جسٹس محمد امیر بھٹی شامل تھے۔ سماعت کے موقع پر وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری اور ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس بنانے کا معاملہ کبھی کابینہ ایجنڈے کے طور پر پیش نہیں ہوا، پرویزمشرف کے خلاف کیس سننے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے ججز کی تقرری کے معاملے پردوبارہ کابینہ کی میٹنگ ہوئی، 8 مئی 2018 ء کو خصوصی عدالت کے ایک جج کی تقرری کا معاملہ کابینہ میں زیر بحث آیا،21 اکتوبر کو جسٹس یاور علی ریٹائر ہو گئے اور خصوصی عدالت پھر ٹوٹ گئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 6 میں معطلی، اعانت اور معطل رکھنے کے الفاظ شامل کیے گئے، اس پر بنچ کے سربراہ مسٹر جسٹس سید مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی تو آئین میں شامل ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایمرجنسی میں بنیادی حقوق معطل کیے جا سکتے ہیں۔ دورانِ سماعت بنچ کے رکن جسٹس امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 232 کے تحت ایمرجنسی لگائی جا سکتی ہے اگر ایسی صورتحال ہو جائے کہ حکومت ایمرجنسی لگا دے تو کیا اس حکومت کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلے گا اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے، عدالت نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ تو پھر آئین سے انحراف کیسے ہو گیا۔ عدالت نے کہا کہ ایمرجنسی لگائی جائے گی تو پھر اس کا تعین ہوگا کہ کیا ایمرجنسی آئین کے مطابق لگی یا نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 6 میں آئین معطل رکھنے کا لفظ پارلیمنٹ نے شامل کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے 3 لفظ شامل کرکے پورے آئین کی حیثیت کو بدل دیا، اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ایمرجنسی کو شامل رکھا ہوا ہے۔ درخواست گزار پرویز مشرف کے وکلاء خواجہ طارق رحیم اور اظہرصدیق نے دلائل میں موقف اختیار کیا تھاکہ سنگین بغاوت کے مقدمے کا استغاثہ، پراسیکیوشن ٹیم اور سپیشل کورٹ اسلام آباد کی تشکیل آرٹیکل 90 اور 91 کی خلاف ورزی ہے، غیر قانونی طور پر خصوصی عدالت کی تشکیل سمیت تمام اقدامات وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر کیے گئے ہے،آئین کی معطلی اور ایمرجنسی کا نفاذ صدر مملکت کا صوابدیدی اختیار ہے، پرویز مشرف نے قانونی طور پر اپنے اس حق کو استعمال کیا، انہوں نے استدعا کی کہ استغاثہ پرویز مشرف کے خلاف قائم خصوصی عدالت کی تشکیل تمام کارروائی بشمول فیصلہ کالعدم قرار دے،کریمنل لاء ترمیمی سپیشل کورٹ ایکٹ 1976ء کا سیکشن 9 کالعدم قرار دیا جائے، سیکشن 9 آرٹیکل 10 اے، 4 اور 5 سے متصادم ہے، اگر آئین کی معطلی کو جرم مان بھی لیا جائے تو یہ اقدام بعد میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اپریل 2010 ء میں سامنے لایا گیا، ایمرجنسی 2009 ء میں نافذ کی گئی، آرٹیکل 12 کے تحت ماضی میں کیے گئے جرم کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا، تمام اقدامات آرٹیکل 10 اے ، 12، 14 کی خلاف ورزی ہے تو آرٹیکل 8 کے تحت فاسد قرار دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے 17 دسمبر 2019 ء کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 6 میں جو ترمیم کی گئی اس کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ کسی بھی ملزم کی عدم موجودگی میں اس کا ٹرائل کرنا غیراسلامی، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔قبل ازیں سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان پیش ہوئے اور عدالت کے حکم پر وفاقی حکومت کی جانب سے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری اور ریکارڈ پیش کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس بنانے کا معاملہ کبھی کابینہ ایجنڈے کے طور پر پیش نہیں ہوا جس پر جسٹس مسعود جہانگیر نے استفسار کیا کہ کابینہ کا اجلاس کس تاریخ کو ہوا تھا۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اجلاس 24 جون 2013 کو ہوا تھا۔خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے ججز کی تقرری کے معاملے پر دوبارہ کابینہ کا اجلاس ہوا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس سننے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کابینہ کی منظوری کے بغیر ہوئی۔8 مئی 2018 کو خصوصی عدالت کے ایک جج کی تقرری کا معاملہ کابینہ میں زیر بحث آیا تھا، 21 اکتوبر 2018 کو جسٹس یاور علی ریٹائر ہو گئے اور خصوصی عدالت پھر ٹوٹ گئی تھی۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دئیے کہ جسٹس شاہد کریم کو خصوصی عدالت کا رکن بنانے کے لیے نام وزارت قانون و انصاف نے ان کا نام تجویز کیا اس سے قبل کبھی بھی وزارت قانون و انصاف نے نام تجویز نہیں کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا خصوصی عدالت کی تشکیل کا معاملہ کابینہ کے اجلاسوں میں زیر غور آیا تھا جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا نہیں ہوا۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ آپ کے ریکارڈ کے مطابق عدالت کی تشکیل اور شکایت درج کرنے کا نہ کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی نوٹیفیکیشن موجود ہے۔جسٹس مسعود جہانگیر نے ریمارکس دئیے کہ یعنی سب کچھ دو دن میں ہوا، اس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ یہ تو لگتا ہے سب کچھ واٹس ایپ پر ہوا۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دئیے کہ ضیاء الحق نے کہا تھا کہ آئین کیا ہے 12 صفحوں کی کتاب ہے، اس کتاب کو کسی بھی وقت پھاڑ کر پھینک دوں، یہ آئین توڑنا تھا، ایمرجنسی تو آئین میں شامل ہے۔ اپنے ریمارکس میں جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ اگر ایسی صورتحال ہو جائے کہ حکومت ایمرجنسی لگا دے تو کیا اس حکومت کے خلاف بھی غداری کا مقدمہ چلے گا۔ جسٹس امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 232 کے تحت ایمرجنسی لگائی جاسکتی ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ تو پھر آئین سے انحراف کیسے ہو گیا۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 6 میں معطلی، اعانت اور معطل رکھنے کے الفاظ شامل کیے گئے تھے۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ترمیم کے بعد کسی ملزم کو ماضی سے جرم کی سزا دی جا سکتی ہے جس پر وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نئی قانون سازی کے بعد جرم کی سزا ماضی سے نہیں دی جا سکتی۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ نے 3 لفظ شامل کر کے پورے آئین کی حیثیت کو بدل دیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے پرویز مشرف کے خلاف انکوائری مکمل کی جس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کی کتنے رکنی ٹیم انکوائری کی۔اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 20 سے 25 افراد پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس نے انکوائری مکمل کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں اندرونی ایمرجنسی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ایسا کبھی ہو سکتا ہے پارلیمنٹ کے ذریعے عدالت کا دائرہ اختیار ختم ہو جائے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، اس پر فاضل جج نے کہا کہ آپ مثال لے لیں ضمانت کا کانسپٹ نہیں تھا، کیا عدالتوں نے اسکی تشریح نہیں کی، نکتہ آصف علی زرداری کے والد کے کیس میں طے کیا گیا، کیا کبھی جمہوری نظام میں عدالتوں کے دائرہ اختیار کو ختم کیا گیا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ صرف آرٹیکل 6 کی حد تک قانون سازی کی گئی، اس کے لئے خصوصی عدالت قائم کی گئی ہے، عدالت سو موٹو کا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ فاضل جج نے استفسار کیا کہ کسی ایک صوبے میں ایمرجنسی نافذ ہو جائے تو کیا کیا جائے گا؟ عدالت کو بتایا گیا کہ وہ صوبہ وفاقی کو لکھ کر بھیج سکتا ہے کہ ایمرجنسی غلط لگائی گئی، فاضل جج نے کہا کہ یہ تو آپ نے وہی بات کی جب کسی ایس یچ او کیخلاف شکایت آئے تو ایس پی درخواست کو اسی ایس ایچ او کے پاس انکوائری کیلئے بھیج دیتا ہے،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے وفاقی حکومت کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایمرجنسی آپ کے لئے لائف سیونگ ڈرگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ عدالت میں جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ عدالتی تشکیل کا نوٹیفکیشن آپ پڑھ رہے ہیں بتائیں عدالتی تشکیل کے فیصلے کی کابینہ میٹنگ کہاں ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی تشکیل اور کمپلینٹ درج کرنے کے متعلق وفاقی کابینہ کی میٹنگ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، 20 نومبر کا ہی نوٹیفیکیشن موجود ہے،۔ جسٹس مسعود جہانگیر نے کہا کہ آپ کے ریکارڈ کے مطابق عدالت کی تشکیل اور کمپلینٹ درج کرنے کا نہ کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی نوٹیفیکیشن موجود ہے،یعنی سب کچھ 2 دن میں ہوا، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ یہ تو لگتا ہے سب کچھ واٹس ایپ پر ہوا، اس پر کمرہ عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری کیسے ہوتی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس لاہور، گورنر پھر چیف جسٹس پاکستان پھر صدر مملکت منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے، جسٹس مسعود جہانگیر نے کہا کہ اس خصوصی عدالت کی تشکیل کیلئے مذکورہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کیلئے مذکورہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔فاضل عدالت نے قرار دیا کہ کیا ترمیم کے بعد کسی ملزم کو ماضی سے جرم کی سزا دی جا سکتی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی قانون سازی کے بعد جرم کی سزا ماضی سے نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے وکلائ کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعدازاں مختصر فیصلہ سنا تے ہوئے خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قرار دیدی۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
لاہور (اپنے نامہ نگار سے‘ بی بی سی‘ نیٹ نیوز) خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف سماعت کرنے والے فل بنچ کے دائرہ اختیارکو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ یہ درخواست معروف قانون دان اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا فورم موجود ہے۔ فل بنچ کو خصوصی عدالت کی تشکیل کیخلاف کیس کی سماعت کا اختیار نہیں۔ غداری کے کیس میں عوام الناس بھی متاثرہ فریق ہے۔ مفاد عامہ کی اس درخواست کو سماعت کیا جائے اور لاہور ہائیکورٹ کوکیس کی سماعت سے روکا جائے۔ بی بی سی کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان کے مطابق اس فیصلے کے بعد پرویز مشرف کی سزا بھی ختم ہو گئی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ وہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے خوش ہیں اور اب ان کی طبیعت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ ہائیکورٹ کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ ہائیکورٹ نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ صحت یابی کے لیے دعائیں کرنے پر سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پرویز مشرف کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ لاہورہائیکورٹ کے فیصلے سے لگتا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف سارے آرڈرز ختم ہو گئے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ ٹرائل غیرقانونی اورغیرآئینی ہے، اچھا ہوا ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا گیا ہے۔ مشرف کیخلاف فیصلہ سنانے میں جلدی کی گئی اور ججز جلدی سے اس کیس کو لپیٹنا چاہتے تھے۔ وزیر قانون فروغ نسیم نے نجی ٹی وی پر فیصلے کے حوالے سے کہا ہے کہ 2009 ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ 3 نومبر کے اقدامات غیرقانونی ہیں۔ سپریم کورٹ کا 1999 ء کا فیصلہ ہے کہ خصوصی عدالتیں ہائی کورٹ نہیں ہوتیں۔
لاہور ہائیکورٹ: مشرف کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار
Jan 14, 2020